دین کا خودساختہ ماڈل

حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےقرآن کی یہ آیت پڑھی:(ترجمہ) جنھوں نے اپنے دین میں راہیں نکالیں اور گروہ گروہ بن گئے (6:159)،اور کہا: اے عائشہ۔یہ لوگ بدعت والے، یہ لوگ خواہشات والے ہیں۔ ان لوگوں کے لیے توبہ نہیں  ہے، میں ان سے بَری ہوں ، اور وہ مجھ سے بَری ہیں (أَنَا مِنْہُمْ بَرِیءٌ ,وَہُمْ مِنِّی بِرَاءٌ) المعجم الصغیر للطبرانی، حدیث نمبر 560۔

یہ کون لوگ ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو دین کے نام پر دین کا خودساختہ ماڈل بنالیتے ہیں ،اور یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ یہی خدا کا دین ہے۔ یہ ایک ناقابل معافی جرم ہے۔ ایسا کیوں کر ہوتا ہے کہ انسان ایک خود ساختہ دین کو اصل دین سمجھ لے۔انسان ایک ماحول میں پیدا ہوتا ہے۔ ماحول کے اثر سے اس کی ایک شخصیت بن جاتی ہے۔ اس شخصیت کے بننے میں مختلف قسم کے تعلقات کا دخل ہوتا ہے۔ وہ شعوری یا غیر شعوری طور پر اپنے ماحول کا پروڈکٹ (product) بن جاتا ہے۔ یہ اثرات دھیرے دھیرےاتنا زیادہ پختہ ہوجاتے ہیں کہ انسان اسی کو اصل دین سمجھنے لگتاہے۔ وہ سختی کے ساتھ اسی خود ساختہ دین پر قائم ہوجاتا ہے۔ انسان کو یہ کرنا ہے کہ وہ اپنا محاسبہ کرے۔ وہ اپنی شخصیت کی ڈی کنڈیشننگ کرے۔ وہ اپنے آپ کو دوبارہ فطرت کے تقاضوں پر کھڑا کرے۔

کنڈیشننگ اور ڈی کنڈیشننگ کا معاملہ ہر انسان کا معاملہ ہے۔ ہر انسان کے ساتھ یہ پیش آتا ہے کہ وہ اپنے ماحول کے اثرات کے تحت ایک کنڈیشنڈ (conditioned) انسان بن جاتاہے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ اس کنڈیشننگ کو دریافت کرے۔ بے رحم ڈی کنڈیشننگ (merciless de-conditioning) کے تحت وہ اپنے بناوٹی مولڈ کو توڑے، اور دوبارہ اپنے آپ کو فطرت کے مولڈ (mould)پر قائم کرے۔ یہ عمل ہر انسان کو لازمی طورپر کرنا ہے۔ جو آدمی ڈی کنڈیشننگ کے اس عمل میں ناکام رہے، اس کا وہی حال ہوگا، جس کی تصویر مذکورہ حدیث میں بتائی گئی ہے،یعنی دین کے نام پر بے دین شخصیت۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom