خبرنامہ اسلامی مرکز- 266

30 جولائی 2018 کو امریکن سنٹر (کولکاتا) نے ’آور وائس آور جرنی، اے کنورسیشن وِد وومن چینج میکرس‘ کے عنوان سے ایک پینل ڈسکشن کا انعقاد کیا۔ شرکاء میں عالمی شہرت یافتہ شخصیات کافی تعداد میں موجود تھیں۔ مس شبینہ علی (سی پی ایس ٹیم ممبر، کولکاتا) نےاس میں شرکت کی۔ انھوں نے شرکاء سے ملاقات کرکے ان تمام لوگوں کے درمیان قرآن (ترجمہ)، اسپرٹ آف اسلام، ایج آف پیس، لیڈنگ اسپریچول لائف وغیرہ دیے۔ تمام لوگوں نے خوشی کے ساتھ ان کو قبول کیا۔

سی پی ایس (جمشید پور) نے ایک نیا سلسلہ شروع کیا ہے۔ اس کے تحت ترجمۂ قرآن اور دعوتی لٹریچر مساجد اور لائبریریوں میں لوگوں کو پڑھنے کی غرض سے رکھا جاتا ہے۔اس پر سی پی ایس جمشید پور کا اسٹمپ لگا ہواہوتا ہے۔ اس کے بعد یہ واقعہ ہوا کہ سی پی ایس (جمشید پور) کو ایک فون آیا۔کال کرنے والے نے بتایا کہ ٹلکو (جمشیدپور) کی ایک مسجد میں اس نے قرآن کا ہندی ترجمہ دیکھا ہے جس پر یہ فون‌نمبر تھا، اور اس پر فری ڈسٹریبیوشن کا‌اسٹامپ لگا ہوا ہے، تو کیا میں اسے حاصل کر سکتا ہوں۔ انھوں نے مزید یہ بتایا کہ میں ملٹری میں سروس کرتا ہوں۔یہ تھے مسٹر شیخ‌صادق جو انڈین ملٹری کے میکینیکل ڈپارٹمنٹ میں ٹکنیشین ہیں۔ 3 اگست 2018 کو مسٹر شیخ‌صادق اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ قرآن کے لیے آئے۔انھوں نے بتایا کہ وہ مولانا کو پچھلے کئی سالوں سے جانتے ہیں اور انٹر نیٹ پر ان کو کبھی کبھی سنتےہیں۔ان کو قرآن کے ہندی اور انگریزی ترجمے، ہندی کی سیرت کی کتابیں اور پمفلٹس دیے گئے۔ ان کو پاکر ان لوگوں نے خوشی کا اظہار کیا، اور شکریہ ادا کرکے رخصت ہوئے۔

سی پی ایس ٹیم (سہارنپور) نے مشہور دینی ادارہ مظاہر العلوم اور دار العلوم کے علماء سے 2 اگست 2018 کو ملاقات کی اور انھیں دعوت کی اہمیت بتائی۔ تمام لوگوں نے اس کاا ظہار کیا کہ وہ دعوت کا کام کریں گے۔

سی پی ایس مشن کے تحت جیلوں میں بھی دعوہ لٹریچر خاص طورپر قرآن تقسیم کیے جاتے ہیں۔ اس سلسلے کا ایک ای میل یہاں شائع کیا جارہا ہے:

I am wanting to get at least 25 copies of the Quran for a jail in the city of Marion, Indiana. They have requested for Quran copies and have a high need of them, as the prisoners have asked for the Quran. I am the President of the Women’s Committee at the Islamic Center of Bloomington in Bloomington, Indiana. I am a convert to Islam. I would like to help these people by providing them the Quran. We have had some copies of your translation of the Quran and they are wonderful. If you could send some more so that we can distribute as a form of dawah, it would be greatly appreciated. (Katherine Barrus, Bloomington, Indiana, USA).

ذیل میں چند تاثرات نقل کئے جاتے ہیں :

… میں پچھلے 20 سال سے درس وتدریس کا کام کرتاہوں۔ تفسیر جلالین، تفسیر نسفی کا طلبہ کو درس دے چکا ہوں ،تفسیر القرطبی وغیرہ مطالعے میں رہتی ہیں ، لیکن یہ سب تفاسیر صرف فنی معلومات دیتی ہیں۔ نصیحت کہیں کہیں مل بھی جاتی ہے تو فنی معلومات کے بالمقابل نہ کے برابر ہے۔اس کے برعکس، تذکیر القران ایک ایسی تفسیر ہے جس میں صرف پیغام الٰہی پر فوکس کیا گیا ہے، جس میں ناصحانہ پہلو،داعیانہ پہلو مرکزی موضوع ہے۔ ایک اور بات یہ کہ ایک کم پڑھا لکھا شخص بھی اس تفسیر سے اصل پیغام الٰہی کو اچھی طرح سمجھ سکتاہے۔ یہ خصوصیت کسی اور تفسیر میں نہیں  ملتی۔واللہ اعلم (مولانا محمد جمیل صدیقی، گلبرگہ، کرناٹک)۔

… تذکیر القرآن کا فوکس معرفت اور دعوت ہے۔ مولانا کی چاہے کوئی کتاب ہو، یا تفسیر، یا لکچر، یہ تمام معرفت اور دعوت پر مبنی ہیں۔ جو آدمی بھی مولانا کی کتابیں اور لکچرس مسلسل پڑھتا اور سنتا رہےگا، امید ہے کہ وہ کنفیوژن سے بچ جائے گا۔ (مولانا عبد الباسط عمری، قطر)۔

… تذکیر القرآن ایک ایسی تفسیرہے، جو دوسروں کے یہاں نہیں ہے۔ خدا اور آخرت کا پیغام، دعوت کا پیغام کسی دوسری جگہ نہیں  ملتا ہے۔یہی تذکیر القرآن کی امتیازی خصوصیت ہے۔ قرآن کا جو اصل پیغام ہے تذکیر القرآن اس کو بتاتا ہے، یعنی خدا اور آخرت رخی زندگی۔ اس کے پڑھنے والے کو ہر جگہ معرفت، دعوت اور ربانیت کی ہی باتیں ملتی ہیں۔ (حافظ سید اقبال احمد عمری، تامل ناڈو)

… مولانا صاحب کی تحریریں کس طرح ہمیں سوچنے میں مدد کرتی ہیں۔ اس حوالے سے عرض ہے کہ 1992 میں میں نے کسی کے کہنے پر مولانا کی کتاب ’’ کتاب زندگی‘‘ خریدی تھی۔ اُس وقت میں مولانا کے نام سے بھی واقف نہ تھا۔ میرا مطالعہ زیادہ تر ناولوں ، افسانوں یا سفر ناموں پر مشتمل تھا۔ اُس وقت میری عادت تھی جب کوئی کتاب پڑھنے بیٹھتا، چالیس پچاس صفحے ایک نشست میں ختم کردیتاتھا۔ اِ سی عادت کے تحت میں نے مولانا کی مذکورہ کتاب بھی پکڑی، اورپڑھنے بیٹھ گیا،صرف پانچ چھ صفحات پڑھ کر مجھے احساس ہوا کہ یہ کتاب ویسی نہیں  جیسی کتابیں میں نے پہلے پڑھی ہیں۔ اس کا ہر صفحہ اپنے دامن میں حکمت و دانائی کے موتیوں کوسمیٹے ہوا ہے۔ یہ کتاب تو کایا پلٹ (game changer) کتا ب ہے۔ پھر میں نے فیصلہ کیا کہ ہر روز اِس کتاب کا ہر روز ایک صفحہ پڑھوں گا۔ پھر اس صفحہ میں جو پیغام ہے اُس کو اچھی طرح سے ذہین نشین کرنے کے لیے باتوں باتوں میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ اُس پیغام کو زیر گفتگو لاؤں گا۔ کتاب زندگی کو میں نے ایسے ہی ختم کیا تھا۔ اس کتاب نے مجھے سنجیدگی دی، اور ایک با مقصد زندگی کی طرف ر اغب کیا۔ پھر مولانا کی کتابوں کا ایسا ذوق پیدا ہوا کہ ایک کے بعد ایک کتاب زیر مطالعہ رہی۔تاہم کبھی بھی مولانا کی کتاب کے دوتین صفحے سے زیادہ پڑھنے کی کوشش نہ کی۔ کیونکہ مجھے ایسا لگتا ہے کہ مولانا کی دعوت گہرے غور وفکر کا تقا ضہ کرتی ہے۔ سرسری مطالعہ اس فکر کے ساتھ ناانصافی ہے۔ مولانا کی تحریر نے مجھے احساس دیا کہ اگر میں کسی کی طرف ایک اُنگلی اُٹھاتا ہوں تو باقی انگلیوں کا رخ میری طرف ہوتا ہے۔پہلے مجھے اپنے آپ کو ٹھیک کرنا ہے۔ کامیابی کوئی خارجی چیز نہیں  ہے،یہ داخلی معاملہ ہے۔ کامیاب وہ نہیں  ہے،جو دوسروں کا سر کاٹ لے،کامیاب وہ ہے جو دوسروں کے دلوں کو جیت لے۔ مولانا کی تحریر سے مجھے معلوم ہوا کہ میں صرف لڑنے کی اہمیت کو جانتا ہوں ، امن اور صلح کی اہمیت سے بے خبر ہوں ، جب کہ میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم امن کے لیے حد یبیہ میں فریقِ مخالف کی تمام شرائط کو یک طرفہ طور پرتسلیم کر لیتے ہیں ،تا کہ کسی طرح امن قائم ہو جائے۔ میں اُن کا امتی ہو کر بھی امن کی اہمیت سے بے خبر تھا۔ یہ مولانا کی تحریروں کا فیض تھا کہ میرے لیے امن (peace)کی اہمیت اجاگر ہوئی۔ اسی طرح مولانا سے یہ بھی سیکھا کہ اللہ بتانے سے نہیں  ملتا، اللہ کو ذاتی طور پر تلاش (discover) کرنا پڑتا ہے۔ جب داخلی طور پراللہ کی دریافت ہوتی ہے،توپھر ایمان و یقین ثمر بار ہوتا ہے۔ اس لیے اپنےاردگرد مظاہر فطرت پر غور کرو۔ پھر اللہ کی موجودگی کا احساس اندر سے پیدا ہوگا۔ اسی طرح مولانا کی کتاب ’’فکر اسلامی ‘‘ جب میں نے پڑھی، یقین جانیے میری تو آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ اس میں مولانا نے بڑی بڑی اسلامی قد آور شخصیات کے فکر و نظریات پر قلم اُٹھایا تھا۔ پہلے پہل تو میں ہکا بکا رہ گیا۔ لیکن جب ٹھنڈے دل سے غور کیا تو مولانا کے نقطہ نظر میں مجھے توازن نظر آیا۔ ہم پچھلے کئی سو سال سے خوار ہورہے ہیں۔ اس کی آخر کوئی تو وجہ ہو گی۔ کہیں تو ہم سے چوک ہوئی ہوگی۔ کوئی شخص تو ہمت کرکے جائزہ لے کہ ہم کیوں دنیا میں ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ مولانا نے جس چیز کو صحیح سمجھا اس کو بیان کر دیا۔ جہاں کوئی غلطی نظر آئی اس کا بر ملا اظہار کردیا۔ نتیجتاً اُن کو سقراط بن کر لوگوں کی زہریلی باتوں کے جام پینے پڑے، لیکن حرف شکایت زبان پر نہ لائے۔ ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ ہم نے محمد بن قاسم اور صلاح ا لدین ایوبی کی تلواروں کی تعریف کی ہے۔ لیکن کبھی اپنے احتساب کے لیے اٹھنے والے قلم کی تعریف نہ کی۔ ہماری عقلوں کو نہ جانے کس کی نظر لگی ہے کہ جب تک کو ئی رہنما اس دنیا سے چلا نہیں  جاتا، تب تک ہم اُس کا اعتراف نہیں  کرتے۔ ہماری آنکھوں میں ایسی کجی آئی کہ عصر حاضر کے آئینہ میں ہم کو کسی کی خوبی نظر نہیں  آتی۔ دعا کریں اللہ میرے اندر ایک داعی کی خوبیاں پیدا کرے۔ آمین (محمد فاروق، لاہور، پاکستان )

- The Quran: An Abiding Wonder was the first book by Maulana that I read about 30 years ago. It helped me understand the reason for the fall of various Muslim rulers and their dynasties over centuries. At a personal level, it has been a constant source of learning for all facets of life. I have also learnt from the Maulana that dawah is not merely one of the activities of a believer, rather it should reflect in all of one’s dealings and behaviour. (Azhar Rizvi, Karachi)

-The real subject of Maulana’s books is to see things scientifically and understand their logical end. (Qamar Abbas, Lahore)

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom