نظری تبلیغ، عملی اقدام
ایک حدیثِ رسول ان الفاظ میں آئی ہے:إِذَا رَأَیْتُمْ أَمْرًا لَا تَسْتَطِیعُونَ تَغْیِیرَہُ، فَاصْبِرُوا حَتَّى یَکُونَ اللہُ ہُوَ الَّذِی یُغَیِّرُہُ(المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر 7685)۔ یعنی اگر تم ایک ایسا معاملہ دیکھو، جس کو بدلنے کی طاقت تم کو نہ ہو تو صبر کرو، یہاں تک کہ اللہ خود اس میں کوئی تبدیلی کردے۔ اس حدیث رسول میں اسلام کا طریق عمل بتایا گیا ہے۔ اسلام کا طریقہ نظری تبلیغ اور عملی اقدام میں فرق کرتا ہے۔ اسلام کا طریقہ یہ ہےکہ ممکن کے درجے میں پر امن طریقے سے تبلیغ کا کام کیا جائے۔ خود اپنی طرف سے ہر گز کوئی عملی ٹکراؤ نہ شروع کیا جائے۔ اسی اسلامی اصول کا نام صبرہے۔ مومن کے لیے فرض ہے کہ وہ ایک خود ساختہ عذر لے کرموجود اتھاریٹی کے ساتھ ٹکراؤ سے اپنا کام شروع نہ کرے۔
تحریک کا ایک مرحلہ عملی تبدیلی ہے۔ مگر عملی تبدیلی کے لیے کوئی اقدام صرف اس وقت کیا جائے گا، جب کہ حالات میں کوئی ایسا واضح فرق واقع ہو، جو بتائے کہ اب اگر عملی اقدام کیا گیا تو وہ مثبت (positive) ریزلٹ کا سبب بن سکتا ہے۔ گویا کہ آدمی اگر کسی چیز کو حق سمجھے تو وہ صرف پرامن طور پر نظری تبلیغ کرسکتا ہے، لیکن عملی اقدام کے لیے صرف یہ کافی نہیں کہ آدمی کو اس کااپنا اقدام بطور خود درست نظر آتا ہو۔ عملی اقدام کی لازمی شرط ہے کہ وہ باعتبار نتیجہ مفید ثابت ہوسکتا ہو۔ جس عملی اقدام سے مثبت نتیجہ نکلنے والا نہ ہو، وہ اقدام اسلام کے مطابق ہرگز جائز نہیں۔
اس حدیث میں تبدیلی کو اللہ کی طرف منسوب کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اللہ خود آکر حالات کو بدل دے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ فطری حالات کے مطابق خود اس میں تبدیلی واقع ہوجائے۔ فطری حالات کے مطابق تبدیلی کا واقع ہونا، اس بات کا اشارہ ہے کہ اب درست طور پر وہ وقت آگیا ہے، جب کہ اپنے مقصد کی طرف عملی اقدام کیا جائے۔ نظری تبلیغ میں ، پہنچانا معیار ہے، اور عملی اقدام میں ، مثبت نتیجہ کا نکلنا۔