فرضی ماڈل کا نمونہ
28 جون2004 کو میں دہلی کے ایک ٹی وی پروگرام میں تھا۔ـ یہاں میری ملاقات ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ مسلمان سے ہوئیــ۔ گفتگو کے دوران انہوں نے بتایا کہ وہ ڈاکٹر ذاکر حسین (1897-1969) کے فین ہیں۔ آج کل وہ ان کی مشہور کہانی ’’ابو خاں کی بکری‘‘ کا ترجمہ انگریزی زبان میں کررہے ہیں۔ اچانک میری زبان سے نکلا کہ وہ تو اسٹون ایج کی کہانی ہے۔ آج کے حالات میں اس کا کیاریلونس۔ اس پر وہ غصہ ہوگئے اور کہا کہ ابوخاں کی بکری تو ایک ادبی شاہکار ہے۔ اس کے اندر ایک ابدی پیغام ہے، وغیرہ۔
ڈاکٹر ذاکر حسین کی اس کہانی میں آزادی اور بہادری کی اہمیت کو بتایا گیا ہے۔ اس کا پیغام یہ ہے کہ آزادی کے لیے بڑی سے بڑی طاقت سے لڑجاؤ، خواہ اس راہ میں تم کو اپنی جان دینی پڑے۔کہانی کا خلاصہ یہ ہے کہ الموڑا کے ایک شخص، ابو خاں ، کی بکری آزادی کی تلاش میں اپنے مالک سے بھاگ کر پہاڑ وں میں چلی جاتی ہے۔ وہاں اس کو ایک بھیڑیا ملتا ہے۔ بکری خوب جانتی تھی کہ میں بھیڑیے کو نہیں مارسکتی مگر اس نے مقابلہ کا فیصلہ کیا۔ مقابلہ ضروری ہے، خواہ اس راہ میں جان دینی پڑے۔ کہانی کے مطابق، بکری ساری رات بھیڑیے سے لڑتی رہی یہاں تک کہ وہ لہو لہان ہوگئی۔صبح ہوئی تو قریب کی مسجد سے مؤذن کی اللہ اکبر کی آواز آرہی تھی۔ بکری نے کہاکہ اللہ تیرا شکر ہے اور پھر وہ سخت زخمی ہو کر زمین پر گرگئی اور مر گئی۔ اس وقت پاس کے درخت پر کچھ چڑیاں بیٹھی ہوئی تھیں۔ اکثر چڑیوں نے کہا کہ بھیڑیا جیت گیا۔ مگر ایک بوڑھی چڑیا نے کہا کہ نہیں ، بکری کی جیت ہوئی۔
بکری کی یہ لڑائی بلاشبہ بے مقصد بھی تھی اور بے فائدہ بھی۔ کہانی کے مطابق، بظاہر اس لڑائی کا کوئی واقعی مقصد نہ تھا۔ مزید یہ کہ اس لڑائی سے کوئی فائدہ نکلنے والا نہ تھا۔ کہانی اس لڑائی کا کوئی مثبت فائدہ نہیں بتاتی۔ گویا کہ یہ لڑائی برائے لڑائی تھی، اور ظاہر ہے کہ اس قسم کی لڑائی کوئی قابلِ تعریف کام نہیں۔
حقیقت کے اعتبار سے دیکھیے تو مذکورہ قسم کی لڑائی بکری کی فطرت کے بالکل خلاف ہے۔ کوئی بکری کبھی اس طرح بھیڑیے سے لڑ کر اپنی جان نہیں دیتی۔ بکری کا طریقہ بھیڑیے سے ٹکراؤ کو اوائڈ کرنا ہے نہ کہ جان بوجھ کر اس سے لڑ جانا۔ اس فرضی کہانی کو اس کے مصنف نے الموڑا کے ایک واقعہ کے طور پر پیش کیا ہے، مگر اس کا تعلق نہ حقیقت سے ہے اور نہ اسلام سے۔
کسی بکری نے کبھی ایسا نہیں کیا کہ وہ رات بھر بھیڑیے سے لڑے اور اس طرح جان بوجھ کر اپنے کو ہلاک کردے۔ کہانی کی مذکورہ بکری ڈاکٹر ذاکر حسین کی مفروضہ بکری ہے، وہ نہ کسی ابو خاں کی بکری تھی اور نہ خدانے کبھی کسی ایسی بکری کو پیدا کیا۔
اسلامی نقطۂ نظر سے دیکھئے تو اس قسم کی لڑائی سراسر ناجائز ہے۔ اسلامی تعلیم کے مطابق، یہ تو ممکن ہے کہ کوئی شخص اچانک کسی طاقتور دشمن کی زد میں آجائے اور قتل کرنے والا اس کو قتل کردے۔ مگر جان بوجھ کر ایک ایسے دشمن سے ٹکرانا بلاشبہ غلط ہے جس سے مقابلہ کرنے کی طاقت آدمی کے اندر نہ ہو اور جس کا یقینی نتیجہ یک طرفہ تباہی ہو۔حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: لاَ تَتَمَنَّوْا لِقَاءَ العَدُوِّ، وَسَلُوا اللَّہَ العَافِیَةَ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 2965) یعنی تم دشمن سے مڈبھیڑ کی تمنا نہ کرواور تم اللہ سے عافیت مانگو۔
اپنی حقیقت کے اعتبار سے اس قسم کا ٹکراؤ خود کشی ہے، اور خود کشی اسلام میں جائز نہیں۔لوگ اکثر ایک مہلک غلطی میں مبتلا رہتے ہیں۔ وہ بطور خود ایک مفروضہ ماڈل بناتے ہیں اور پھر اس مفروضہ ماڈل کے ذریعہ ایک ایسے عمل کو جسٹی فائی(justify)کرنے لگتے ہیں جو حقیقۃً قابلِ جواز (justifiable) نہیں۔اس کی ایک مثال امام حسین کے معاملہ میں ملتی ہے۔ خطیبوں اور شاعروں نے امام حسین کا ایک خود ساختہ ماڈل بنایا۔ وہ ماڈل یہ تھا کہ امام حسین نے اپنا سر کٹوادیا مگر وہ یزید کے ہاتھ پر بیعت کے لیے تیار نہیں ہوئے:
سرداد نداد دست در دست یزید
یہ شاعروں اور خطیبوں کا اپنا بنایا ہوا ماڈل ہے ورنہ تاریخ میں جو تصویر ملتی ہے وہ برعکس طورپر یہ ہے کہ امام حسین جب مکہ سے کوفہ کی طرف روانہ ہوئے تو ان کا کوئی ارادہ لڑائی کا نہ تھا۔ اس وقت یزید دمشق میں تھا اور امام حسین اس سے بہت دور کوفہ کی سرحد پر تھے۔ کوفہ میں متعین فوج نے یزید کے حکم کے بغیر بطور خود امام حسین کو گھیر کر ان کو لڑنے پر مجبور کردیا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ اس وقت امام حسین نے وہاں کے فوجی افسر سے کہا کہ تم مجھ کو جنگ پر مجبور نہ کرو بلکہ میری طرف سے تین باتوں میں سے کوئی ایک اختیار کرلو، یا تو میں وہاں واپس چلا جاتا ہوں ، جہاں سے میں آیا ہوں ، یا مجھے یزید کے پاس لے چلو، اور میں یزید کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ دوں گا، پھر دیکھیں گے کہ میرے اور یزید کے درمیان کیا رائے بنتی ہے (وَإِمَّا أَنْ أَضَعَ یَدِی فِی یَدِ یَزِیدَ بْنِ مُعَاوِیَةَ فَیَرَى فِیمَا بَیْنِی وَبَیْنَہُ رَأْیَہُ)، یا تم مجھے مسلمانوں کی سرحدوں میں سے کسی سرحد پر لے چلو، میں انھیں میں سے ایک بن جاؤں گا،پھر جو حق ان کا ہوگا، وہ میرا ہوگا، اور جو ذمے داری ان کی ہوگی، وہ میری ہوگی۔( تاریخ طبری، جلد5، صفحہ413 ؛ الکامل فی التاریخ،جلد3، صفحہ164)۔
معلوم ہوا کہ امام حسین کا وہ ماڈل فر ضی ماڈل ہے جس کو نام نہاد مجاہدین اپنی جنگی کارروائیوں کو جائز ٹھہرانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ سید ابوالاعلیٰ مودودی نے پاکستان میں اسلام کے نام پر ٹکراؤ کی سیاست چلائی جو یقینی طورپر غیر اسلامی سیاست تھی۔ اس کے لیے انہوں نے امام حسین کا حوالہ دیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر حسین کے نمونہ کو چھوڑ دیا جائے تو نمونہ کہاں سے آئے گا۔ اس اصول کے مطابق، شاید ڈاکٹر ذاکر حسین بھی یہ کہیں کہ اگر ابو خاں کی بکری نہ ہوتی تو لڑکر مر جانے کا نمونہ کہاں سے آتا۔
فرضی ماڈل کو اپنے غلط اقدام کے لیے جواز بنانا ایک عام برائی ہے۔ مگر وہ ایک مہلک عمل ہے۔ جو لوگ اس قسم کا طریقہ اختیار کریں ان کے اندر ایک بے حد کمزور شخصیت پرورش پاتی ہے۔ ایسے لوگ کبھی اعلیٰ ربانی حقائق کا تجربہ نہیں کرسکتے۔
فرضی ماڈل کو نمونہ بنانے کی ایک مثال حضرت ابراہیم کے بارے میں اقبال کا یہ شعر ہے:
بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی
اصل واقعہ کے مطابق، حضرت ابراہیم خود سے آگ میں نہیں کودے تھے بلکہ ان کے مخالفین نے جارحیت کرکے انہیں آگ میں ڈالا تھا (الأنبیاء، 68)۔مگر اقبال نے حضرت ابراہیم کا ایک فرضی ماڈل بنایا اور پھر اس فرضی ماڈل کے حوالہ سے قوم کو للکارتے ہوئے کہا:
آج بھی ہو جو براہیم کا ایماں پیدا آگ کر سکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا