عدم اطمینان
ایک شخص نے ان بڑے بڑے اسکالرس پر ریسرچ کیا ہے، جو اپنی کسی بڑی دریافت کی بنا پر نوبل پرائز کے لیے منتخب ہوئے۔ اس نے لکھا ہے کہ میں نے یہ پایا کہ ان اسکالرس میں ایک چیز مشترک تھی۔ وہ تھی عدم قناعت (discontentment)۔وہ علم کے بارے میں کسی حد پر نہیں رکتے تھے۔ اس لیے ان کی ترقی مسلسل جاری رہی۔
بڑے بڑے اہل علم کی جو عدم قناعت علم کے بارے میں ہوتی ہے، وہی عدم قناعت مومن کے اندرمعرفت کے بارے میں ہوتی ہے۔ مومن آخر دم تک معرفت خداوندی کے معاملے میں غیرقانع رہتا ہے، اس لیے اس کی معرفت برابر بڑھتی رہتی ہے، وہ کبھی ختم نہیں ہوتی۔
اہل ایمان کے بارے میں یہی وہ حقیقت ہے، جو حدیث میں ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے: عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الخُدْرِیِّ، عَنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّى اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ:لَنْ یَشْبَعَ الْمُؤْمِنُ مِنْ خَیْرٍ یَسْمَعُہُ حَتَّى یَکُونَ مُنْتَہَاہُ الجَنَّةُ(سنن الترمذی، حدیث نمبر2686)۔مسند شہاب القضاعی کی روایت (نمبر897) میں خیر اور مومن کے بجائے علم اورعالم کا لفظ آیا ہے۔ یعنی ابوسعید خدری کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مؤمن(عالم)خیر (اور علم)کی باتیں سننے سے کبھی سیر نہیں ہوتا یہاں تک کہ اس کی انتہاء جنت پر ہوتی ہے۔
اصل یہ ہے کہ انسان کی نسبت سے دین کے دو پہلو ہیں۔ ایک ہے معرفت کا پہلو، اور دوسرا ہے دینداری کا فارم۔ فارم ہمیشہ معلوم ہوتا ہے۔ کچھ افعال انجام دینے کے بعد اس کی حد آجاتی ہے۔ اور جب کسی چیز کی حد آجائے تو ایسے انسان کے اندر عدم اطمینان کی کیفیت پائی نہیں جائے گی، وہ جو کچھ کررہا ہے، وہ اس پر قانع ہوجائے گا۔
مگر معرفت لامتناہی چیز ہے۔ آدمی کتنا ہی زیادہ معرفت حاصل کرلے،اس کے اندر مزید حصول کا جذبہ کبھی ختم نہ ہوگا۔