سوال و جواب
سوال
قرآن کے مطابق، حضرت ابراہیم نے بتوں کو توڑا، مگرسیرت سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبراسلام نے کعبہ میں بتوں کی موجودگی کو نظر انداز کیا۔جیسا کہ آپ نے بھی لکھا۔ قرآن کے مطابق تمام پیغمبر ہمارے لیے اسوہ ہیں۔ اس اعتبار سے یہ فرق سمجھ میں نہیں آیا۔ وضاحت فرمائیں۔ (عبد العزیز ایڈوکیٹ، کپواڑہ، کشمیر)
جواب
حضرت ابراہیم کی بت شکنی کا واقعہ دور دعوت کا نہیں ہے، بلکہ وہ اتمام حجت کے بعد کا ہے۔ اتمام حجت کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اب قوم میں کوئی ایمان لانے والا نہیں۔ جب کسی قوم کے بارے میں یہ نوبت آجائے تو وہاں حالات کے اعتبار سے مختلف صورتیں اختیار کی جاتی ہیں۔ انتہائی صورت حال میں کبھی اللہ ان کے خلاف سرزنش کے طور پر کوئی کارروائی کرسکتاہے، یا پیغمبر کوئی صورت بطور آخری حجت کے اختیار کرتا ہے۔ جیسا کہ حضرت ابراہیم نے بتوں کو توڑنے کی صورت میں کیا۔
کسی قوم میں جب دعوت کے امکانات موجود ہوں تو وہاں بت شکنی جیسی انتہائی تدبیر کے بارے میں سوچنا بھی شریعت دعوت میں امر ممنوع ہے۔ آپ جس زمانے میں ہیں، ہر جگہ دعوت کے مواقع کھلے ہوئے ہیں۔ آپ کے اپنے علاقے میں بھی اور دنیا کے دوسرے علاقوں میں بھی۔ ایسی حالت میں آپ کے لیے جائز نہیں کہ آپ بت شکنی اور قتال کی اصطلاح میں سوچیں۔ آپ کو صرف پرامن دعوت کی اصطلاح میں سوچنا چاہیے۔
دعوت کی آئڈیالوجی ہمیشہ ایک رہتی ہے، لیکن طریقہ کار (method) کا تعین حالات کے اعتبار سے ہوتا ہے۔ دعوت کا اصول یہ ہے کہ آخری حد تک مدعو کو اللہ کی طرف بلایا جائے۔ دورِ دعوت میں کوئی دوسری بات سوچنا بذات خود ایک مجرمانہ سوچ ہے۔ اس قسم کی سوچ کے لیے اسلام میں کوئی جواز نہیں۔