عافیت کی دعا
عافیت سے متعلق کئی روایتیں حدیث کی کتابوں میں آئی ہیں۔ ان میں سے ایک روایت یہ ہے: قال رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم:من فُتِح لہ منکم باب الدعاء فُتِحت لہ أبواب الرحمة، وما سُئِل اللہُ شیئا یعنی أحب إلیہ من أن یسأل العافیة(سنن الترمذی، حدیث نمبر3548)۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کےلیے دعا کے دروازے کھولے گئے اس کے لئے رحمت کے دروازے کھول دیئے گئے اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس سے عافیت مانگنا ہر چیز مانگنے سے زیادہ محبوب ہے۔
اس دنیا میں انسان کو اگرچہ اختیار دیا گیا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ معاملات میں انسان کا دخل ایک فیصد سے بھی کم ہوتا ہے۔ جب کہ اللہ رب العالمین کا دخل ننانوے فیصد سے بھی زیادہ۔ یہی وجہ ہے کہ انسان کے لیے اللہ سے دعا کرنا بہت زیادہ اہم ہے۔ جس انسان کو یہ حقیقت دریافت ہوگئی، اور وہ اس پر قائم ہوگیا، وہ بلاشبہ اللہ کی رحمتوں کے سائے میں آجائے گا۔
اس دنیا میں انسان کے لیے پہلی رحمت کی چیز ایمان ہے۔ یعنی حقیقت حیات کی دریافت۔ اس کے بعد جو چیز سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے، وہ عافیت ہے۔ عافیت سے مراد وہی چیز ہے جس کو عام طور پر اچھی صحت (good health) کہا جاتا ہے۔ انسان اپنی پیدائش کے اعتبار سے ایک کمزور مخلوق ہے۔ صحت و عافیت میں معمولی خلل انسان کے لیے ناقابل برداشت ہوجاتا ہے۔ جس انسان کو صحت و عافیت حاصل نہ ہو وہ کوئی بھی کام صحیح شکل میں نہیں کرسکتا۔ اس لیے انسان کو چاہیے کہ وہ اللہ سے بہت زیادہ دعا کرے تاکہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو درست طور پر ادا کرنے کے قابل ہوجائے۔مگر یاد کیے ہوئے عربی الفاظ کو دہرانے کا نام دعا نہیں ہے، سچی دعا وہ ہے جو معرفت کی دعا ہو۔ جو دل کی گہرائیوں سے نکلے، نہ کہ لفظی تکرار کے طور پر۔ایسی دعا بلاشبہ اللہ تک پہنچتی ہے، اور وہ اللہ کے یہاں قبولیت کا درجہ پاتی ہے۔