قابل عمل طریقِ کار
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کی غیر معمولی کامیابی کا اعتراف عام طور پر مورخین نے کیا ہے۔ امریکی مصنف ڈاکٹر مائکل ہارٹ نے اپنی کتاب دی ہنڈریڈ میں پیغمبر اسلام کو پوری انسانی تاریخ کا سب سے زیادہ کامیاب انسان بتایا ہے۔ ان کے الفاظ یہ ہیں:
He was the only man in history who was supremely successful on both the religious and secular levels.
Michael H. Hart, The 100: A Ranking of the Most Influential Persons in History (New York: Simon &Schuster Ltd., 1993), 3.
اسی طرح انڈین مصنف ایم این رائے (وفات:1954)نے اپنی کتاب دی ہسٹاریکل رول آف اسلام میں پیغمبر اسلام کے انقلاب کے بارے میں یہ الفاظ لکھے:
The expansion of Islam is the most miraculous of all miracles. (M.N. Roy, The Historical Role of Islam [Bombay: Vora and Co. Publishers Ltd, 1938], 5.)
اس سلسلے میں اصل سوال یہ ہے کہ پیغمبر اسلام کو اپنے مشن میں یہ غیر معمولی کامیابی کس طرح حاصل ہوئی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اس خصوصی طریق کا ر کے ذریعے، جس کو قرآن میں صراطِ مستقیم (الفتح:2) کے نام سے بیان کیا ہے۔ مطالعے سے معلوم ہوتا ہےکہ اس طریقہ کی استثنائی صفت یہ تھی کہ وہ ایک کامل معنوں میں قابل عمل طریقہ (workable method) تھا۔
تاریخ میں بہت سی مثالیں ہیں، جب کہ لوگ ایک مقصد کے لیے اٹھے، انھوں نے غیر معمولی قربانیاں دیں، لیکن وہ اپنے مقصد کے حصول میں کامیاب نہیں ہوئے۔ پیغمبر اسلام کی استثنائی صفت ہے کہ آپ جس مقصد کے لیے اٹھے تھے، اس مقصد کو حاصل کرنے میں آپ پوری طرح کامیاب ہوگیے۔ اس کا سبب یہ تھا کہ آپ کا طریق کار ایک ایسا طریق کا ر تھا، جو ورک کرنے والا (workable) طریق کار تھا۔ جب کہ دوسرے لوگوں کا معاملہ یہ تھا کہ انھوں نے اپنے مقصد کے حصول کے لیے ایک ایسا طریق کار اختیار کیا جو قانون فطرت کے مطابق، ورک کرنے والا (workable) ہی نہ تھا۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا طریق کا ر اس لیے ورک کرنے والا طریق کار بن گیا کہ وہ مکمل طور پر حقیقت پسندی پر مبنی تھا۔ پیغمبر اسلام کے ذہن میں بلاشبہ اپنا ایک سوچا سمجھا آئڈیل تھا، لیکن اپنی حقیقت پسندی کی بنا پر انھوں نے یہ کیا کہ انھوں نے اپنی جدو جہد کے دوران اس طریقے کو اختیار کیا جو حالات کے لحاظ سے عملاً قابل عمل طریق کار تھا۔ آپ کی پالیسی کو ایک لفظ میں اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے:
Ideologically, he was perfectly an idealist, but practically, he always adopted practical wisdom. Theoretically, he was an idealist, but practically, he was a pragmatic.
آؤٹ سورسنگ (outsourcing)
اس معاملے کی ایک مثال یہ ہے کہ پیغمبر اسلام نے 610 عیسوی میں مکہ میں توحید کا مشن شروع کیا۔ مکہ میں مقدس کعبہ تھا، جس کواب سے تقریبا چار ہزار سال پہلے پیغمبر ابراہیم نے ایک خدا کی عبادت کے لیے تعمیر کیا تھا۔ لیکن بعد کے زمانے میں مکہ میں دھیرے دھیرے شرک کے اثرات پھیل گیے۔ یہاں تک کہ بعد کے زمانے میں مکہ کےسرداروں نے کعبہ میں بتوں کو رکھنا شروع کردیا، جن کی تعداد بڑھتے بڑھتے تقریباً تین سو ساٹھ ہوگئی۔ پیغمبر اسلام کے لیے یہ منظر بے حد تکلیف دہ تھا۔ لیکن آپ نے اس معاملے میں مثبت (positive)طریقہ اختیار کیا۔
آپ نے دیکھا کہ ان بتوں کی وجہ سے وہاں روزانہ ایک مجمع ہوتا ہے۔ سارے عرب سے ان بتوں کے پرستار کعبہ کے پاس اکٹھا ہوتے ہیں۔ آپ نے ان پرستاروں سے ٹکراؤ نہیں کیا، بلکہ آپ نے اس موقعہ پر اس طریقے کو اختیار کیا، جس کوآج کل کی زبان میں آؤ ٹ سورسنگ کہا جاتا ہے۔ یہ مجمع تمام تر غیر خدا پرستوں کا مجمع ہوتا تھا۔ آپ نے ان لوگوں کو مدعو کا درجہ دیا۔ اور ان کو اپنا آڈینس (audience) بنا لیا۔ آپ روزانہ وہاں جاتے اور ان کو قرآن پڑھ کر سناتے۔ چناں چہ سیرت کی کتابوں میں آتا ہے:وعرض علیہم الإسلام، وتلا علیہم القرآن(سیرۃ ابن ہشام، 1/428)۔
ری پلاننگ (re-planning)
قدیم مکہ میں آپ کی مخالفت بڑھتی چلی گئی۔ یہاں تک کہ مکہ کے سرداروں نے آپ کو یہ الٹی میٹم دے دیا کہ یا تو آپ مکہ کو چھوڑ دیں، یا ہم آپ کو قتل کردیں گے۔ اس وقت آپ نے دوبارہ ٹکراؤ کا طریقہ اختیار نہیں کیا، بلکہ آپ نے ری پلاننگ کا طریقہ اختیار کیا۔ یعنی آپ نے مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ کو اپنے مشن کا مرکز بنا لیا۔ اور مکہ کے بجائے مدینہ سے اپنے مشن کا سلسلہ جاری رکھا۔ یہ نیا منصوبہ کامیاب رہا، اور بہت جلد اسلام کی تحریک ایک نئے دور میں داخل ہوگئی۔ پہلے اگر آپ کا مشن ایک مقامی مشن تھا، تو اب وہ دھیرے دھیرے ایک انٹرنیشنل مشن بن گیا۔
پیس ایٹ اینی کاسٹ (peace at any cost)
تاہم آپ کی ہجرت کو قدیم مکہ کے سرداروں نے دل سے قبول نہیں کیا۔ انھوں نے آپ کے خلاف جنگی کارروائی شروع کردی۔ لیکن آپ نے دیکھا کہ دونوں فریقوں کے درمیان ٹکراؤ کا ماحول دعوت الی اللہ کے لیے قاتل ہے۔ دعوت کا کام ٹکراؤ کے ماحول میں انجام نہیں دیا جاسکتا۔ اس موقع پر آپ نے فیصلہ کیا کہ کوئی ایسی تدبیر کرنا چاہیے، جس سے دونوں فریقوں کے درمیان امن کا ماحول قائم ہوجائے۔ اس مقصد کے لیے آپ نے فریق مخالف سے گفت و شنید (negotiation) شروع کردیا۔لیکن تجربے سے معلوم ہوا کہ فریق ثانی اس کے لیے راضی نہیں ہے کہ وہ دو طرفہ شرطوں پر امن کا معاہدہ کرے۔ آپ نے یہ طے کیا کہ فریق ثانی کی تمام شرطوں کو مان کر، ان سے یک طرفہ بنیاد ( unilateral basis) پر صلح کا معاہدہ کرلیا جائے۔اس طرح ہجرت کے چھٹے سال دونوں فریقوں کے درمیان وہ معاہدۂ امن طے پایا، جس کو صلح حدیبیہ (Hudaybiyah Agreement)کہا جاتا ہے۔ اس معاہدہ کو اس وقت کے اکثر لوگوں نے ذلت آمیز معاہدہ (humiliating agreement) قرار دیا۔ لیکن قرآن نے کہا کہ یہ فتح مبین (clear victory) ہے۔ اور چند سال کے بعد یہ ثابت ہوگیا کہ یہ معاہدہ اپنے نتیجے کے اعتبار سے یقیناً فتح مبین تھا۔
یہ چند مثالیں ہیں، جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ پیغمبر اسلام کا طریقہ کیا تھا۔ ایک روایت کے مطابق، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اتقوا فراسة المؤمن فإنہ ینظر بنور اللہ (سنن الترمذی، حدیث نمبر3127)۔ یعنی مومن کی فراست سے بچو، کیوں کہ مومن اللہ کے نور سے دیکھتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مومن ذاتی جذبہ کے تحت کام نہیں کرتا، بلکہ وہ فطرت کے بارے میں خدا کے نقشۂ تخلیق کو دریافت کرتا ہے۔ اور اس کے مطابق اپنا منصوبہ بناتا ہے، اور جو لوگ اپنے کام کی پلاننگ اس طرح کریں، وہ ضرور کامیابی کا درجہ پالیں گے۔
انگریزی کاایک مثل ہے:
Hitting the nail on the head
یعنی کیل کے عین سر پر مارنا۔ یہ مثل بہت بامعنی ہے۔ اس میں ایک مادی مثال کے ذریعہ انسانی کامیابی کا راز بتایا گیا ہے۔
یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ کیل جب کسی چیز پر ٹھونکی جاتی ہے تو اس کے ٹھیک سر پر ہتھوڑی ماری جاتی ہے۔ اگر ہتھوڑی کی مار ادھر ادھر پڑے تو وہ صحیح طور پر اندر نہیں داخل ہوگی، بلکہ ٹیڑھی ترچھی ہو کر رہ جائے گی۔اسی طرح زندگی کے معاملات میں یہ جاننا پڑتا ہے کہ ٹھیک ٹھیک وہ کون سا مقام ہے جہاں ضرب لگانی چاہیے۔ صحیح ضرب کے نتیجہ ہی کا دوسرا نام کامیابی ہے۔ (ڈائری، 1985)