تاجر کا معاملہ

تاجر کے بارے میں ایک روایت ان الفاظ میں آئی ہے:عن عبد اللہ بن أبی نہیک قال: لقینی سعد بن أبی وقاص فی السوق فقال:اتجار کسبة اتجار کسبة سمعت رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم یقول:لیس منا من لم یتغن بالقرآن(مسند الحمیدی، حدیث نمبر77)۔ یعنی عبداللہ ابن ابی نہیک کہتے ہیں کہ سعد ابن ابی وقاص بازار میں ان سے ملے۔انھوں نے کہا: تم لوگ بہت کمائی کرنے والے تاجر بن گیے ہو، تم لوگ بہت کمائی کرنے والے تاجر بن گیے ہو۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ کہتے ہوئے سنا: وہ شخص ہم میں سے نہیں جس کو قرآن غنی نہ بنادے۔

اس حدیث کا یہ مطلب یہ نہیں کہ قرآن کے بعد مومن کو تجارت ترک کردینا چاہیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بہت سے صحابہ تجارت کرتے تھے۔ مثلا عثمان ابن عفان اور عبد الرحمن ابن عوف، وغیرہ۔ امام الغزالی نے لکھا ہے: وکان أصحاب رسول اللہ یتجرون فی البر والبحر (احیاء علوم الدین، 2/63)۔ یعنی رسول اللہ کےاصحاب خشکی اور تری میں تجارت کرتے تھے۔

یہ حدیث نفس ِتجارت کی نسبت سے نہیں ہے۔ بلکہ وہ ان تاجروں کی نسبت سے ہے، جو تجارت کے کام میں اتنا زیادہ مشغول ہوجائیں کہ وہی ان کا سب سے بڑا کنسرن (concern) بن جائے۔ تجارت ہی ان کی دلچسپیوں کا واحد مرکز ہو۔ جو اپنی صلاحیتوں کو تمام تر تجارت میں لگا دے۔

تجارت یا کوئی اور معاشی ذریعہ برائے ضرورت ہوتا ہے، نہ کہ برائے مقصد۔ جو شخص تجارت کو ایک ذریعہ کے طور پر اپنائے، اسی کے ساتھ وہ دین کی ذمہ داریوں کو بھی ادا کرے تو وہ بلاشبہ ایک صحیح تاجر ہے۔ اس حدیث میں اس انسان کا ذکر ہےجو تجارت میں اتنا زیادہ مشغول ہو جائےکہ دینی کام میں اس کی رغبت باقی نہ رہے۔یعنی یہ حدیث نفی تجارت کے بارے میں نہیں ہے، بلکہ طریق تجارت کےبارے میں ہے۔مومن کو چاہیے کہ وہ دلچسپی کے درجے میں قرآن کو لے، اور ضرورت کے درجے میں معاشی سرگرمی کو۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom