گفتگو کے اصول
مشہور صحابی عبد اللہ ابن مسعود کا ایک قول ان الفاظ میں آیا ہے: ما أنت بمحدث قوما حدیثا لا تبلغہ عقولُہم، إلا کان لبعضہم فتنة (صحیح مسلم، مقدمہ، 1/11)۔ یعنی اگر تم کسی جماعت کو ایسی بات بتاؤ جو ان کے عقلوں تک نہ پہنچے تو یہ ان میں سے کچھ لوگوں کے لیے فتنہ کا سبب بن جائے گا۔اس کا مطلب یہ ہے کہ کلام اور سامع کے معیار فہم میں مطابقت ہونی چاہیے۔ مثال کے طور پر آج کا زمانہ عقلی زمانہ (the age of reason)ہے۔ اگر آپ ایک درست بات قدیم روایتی انداز میں کہیں تو ایسی بات آج کے انسان کے ذہن کو ایڈریس نہیں کرے گی۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ عدم فہم کی بنا پر، وہ اس کا منکر بن سکتا ہے۔ حالاں کہ اگر بات کو ایسے اسلوب میں کہا جائے جو مخاطب کے لیے قابل فہم (understandable) ہو تو عین ممکن ہے کہ وہ اس کو قبول کرلے۔
مثال کے طور پر اگر آپ یہ کہیں کہ مستشرقین (orientalist) اسلام کےدشمن ہیں تو یہ بات آج کے ایک تعلیم یافتہ انسان کی سمجھ میں نہیں آئے گی۔ وہ آپ کی بات کو بے اصل سمجھ کر رد کردے گا۔ اس کے برعکس اگر آپ یہ کہیں کہ مستشرقین کا نقطہ نظر موضوعی (objective)ہوتا ہے۔ اس لیے وہ صرف اس بات کو سمجھ پاتے ہیں جو موضوعی استدلال (objective reasoning) پر مبنی ہو۔ اس کے برعکس جو بات اعتقادی (subjective) انداز میں کہی جائے، وہ ان کے لیے قابل فہم نہیں ہوتی۔ اس لیے ان کا ذہن ایسی بات کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ اگر آپ اپنی بات کو اس انداز میں کہیں تو آج کا تعلیم یافتہ انسان اس کو قبول کرنے میں کوئی دشواری محسوس نہ کرے گا۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کو قرآن میں وَقُلْ لَہُمْ فِی أَنْفُسِہِمْ قَوْلًا بَلِیغًا (4:63) کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ قرآن کے اس اصول کے مطابق کلام کو ایسے اسلوب میں ہونا چاہیے جو مخاطب کے ذہن کو ایڈریس کرنے والا ہو۔ گفتگو میں جتنی اہمیت صحت کلام کی ہے، اتنی ہی اہمیت اس میں اسلوب کلام کی بھی ہے۔