فروغ وسائل انسانی

امریکی عالم اقتصادیات جان آر کامنس (John R. Commons) نے 1893 میں ایک کتاب شائع کی، دی ڈسٹری بیوشن آف ویلتھ (The Distribution of Wealth)۔ اس کتاب میں اس نے پہلی بار ہیومن ریسورس (human resource)کی اصطلاح استعمال کی۔ ابتدائی طور پر اس اصطلاح کو انڈسٹریل کلچر کی ایک ضرورت کے طور پر لیا گیا تھا۔ لیکن بعد کو توسیعی طور پر یہ اصطلاح انسانی وسائل کے ڈیولپمنٹ (human resource development) کے معنی میں بھی استعمال ہونے لگی۔

یہ اصطلاحی توسیع آغاز ہی سے اپنے اندر غلط فہمی کا ایک پہلو رکھتی تھی۔ وہ یہ کہ جس طرح مادی دنیا میں مادہ کو خارجی ڈیولپمنٹ کے ذریعہ ترقی کے مرحلے تک پہنچایا جاسکتا ہے، اسی طرح انسا ن کو بھی خارجی تربیت کے ذریعہ اعلی تربیت تک پہنچانا ممکن ہے۔ مثلاً اُور (ore) کو ڈیولپ کرکے جس طرح اسٹیل (steel) کے درجے تک پہنچانا ممکن ہوتا ہے، اسی طرح غیر اعلی انسان کو بھی خارجی تربیت کے ذریعہ اعلی انسان کے درجے تک پہنچایا جاسکتا ہے۔ مگر اس تصور میں ایک چیز حذف ہوگئی۔ وہ یہ کہ انسان اگر چہ جسمانی اعتبار سے بظاہر ایک مادی وجود ہے، لیکن اپنے دماغ کے اعتبار سے وہ مکمل طور پر ایک غیر مادی ظاہرہ (non-material phenomenon) کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس فرق کا مطلب یہ ہے کہ انسان بنایا نہیں جاتا، بلکہ وہ اپنے آپ کو خود اپنی سوچ کے تحت تیار کرتا ہے۔ انسان ایک سیلف میڈ (self-made) مخلوق ہے۔

ایک حدیث رسول

ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے: کل مولود یولد على الفطرة، فأبواہ یہودانہ، أو ینصرانہ، أو یمجسانہ (صحیح البخاری، حدیث نمبر1385)۔ یعنی ہر پیدا ہونے والا فطرت پر پیدا ہوتا ہے، پھر اس کے والدین اس کو یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنا لیتے ہیں۔

یہاں والدین کا لفظ علامتی معنی میں ہے، یعنی ماحول (environment)۔ آدمی جس طرح کے ماحول میں زندگی گزارتا ہے، اسی کے مطابق اس کی کنڈیشننگ ہوتی رہتی ہے۔ چناں چہ ہر انسان ایک کنڈیشنڈ انسان ہوتا ہے۔ مگر یہ کنڈیشننگ اوپری نوعیت کی ہوتی ہے۔اس کنڈیشننگ کے باوجود انسان کی اصل فطرت بدستور اپنی جگہ باقی رہتی ہے۔اس اعتبار سے ہر انسان کا پہلا کام یہ ہے کہ وہ اپنے ذہن کی ڈی کنڈیشننگ (deconditioning) کرے۔ وہ اپنے آپ کو شعوری عمل (intellectual process) کے ذریعے ایک نیا انسان بنائے۔ اس سے پہلے اگر وہ کنڈیشننگ کا ایک کیس تھا تو وہ دوبارہ اپنے آپ کو فطرت کا ایک کیس بنائے۔

اس عمل کے دوران انسان مزید یہ کرتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو دریافت کرتا ہے۔ اس عمل (process) کے دوران وہ یہ دریافت کرتا ہے کہ خالق نے اس کے اندر کون سی انفرادی صفت رکھی ہے۔ تخلیق کے اعتبار سے ہر مرد مسٹر ڈیفرنٹ ہے اور ہر عورت مس ڈیفرنٹ۔ اس منفرد شخصیت کو دریافت کرنے کے بعد ہی انسان کی اصل تعمیر کا کام شروع ہوتا ہے۔ انڈسٹری کے کلچر میں آدمی کو معدنیات جیسا ایک مخلوق سمجھا جاتا ہے۔ انڈسٹری کا کلچر آدمی کو خود اپنی ضرورت کے مطابق تربیت دے کر اس قابل بناتاہے کہ وہ اس کی مشین کا ایک پرزہ بننے کے قابل ہوسکے۔

لیکن انسان اس انڈسٹریل تصور سے بہت زیادہ ہے۔ انسان کے اندر یہ صلاحیت ہے کہ وہ اپنے آپ کو دریافت کرے۔ اور اس خود دریافت کردہ تخلیق کے مطابق اپنے آپ کو اعلی مقصد کے لیے ڈیولپ کرے۔ یہ ایک سیلف ڈیولپمنٹ کا عمل (process) ہے۔ یہی سیلف ڈیولپمنٹ کا عمل انسان کو مین (man)سے بڑھا کر سوپر مین بناتا ہے۔ اسی سیلف ڈیولپمنٹ کے بعد آدمی اس قابل بنتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو اعلی کامیابی (super-achievement) تک لے جائے۔ اس لحاظ سے فروغ وسائل انسانی کا سب سے بڑا عمل یہ ہے کہ آدمی اپنے آپ کو ازسر نو دریافت (rediscover) کرے۔ وہ پھر سے اپنی معرفت حاصل کرے۔ اسی خود دریافت کردہ معرفت میں اعلی انسانی ترقی کا راز چھپا ہوا ہے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom