دعا، قبولیتِ دعا
قرآن میں دعا کی بابت ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے: وَقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُونِی أَسْتَجِبْ لَکُمْ إِنَّ الَّذِینَ یَسْتَکْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِی سَیَدْخُلُونَ جَہَنَّمَ دَاخِرِینَ (40:60)۔ یعنی اور تمہارے رب نے فرما دیا ہے کہ مجھ کو پکارو، میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔ جو لوگ میری عبادت سے سرتابی کرتے ہیں، وہ عنقریب ذلیل ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے۔
آیت کے الفاظ سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ ہر دعا کو قبول کرتا ہے۔ لیکن دوسرے بیانات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ دعا کی یہ قبولیت صرف پاک کلمہ (فاطر 10:) کے لیے ہے۔ یعنی وہ پکار جو اللہ کے قانون کے مطابق ایک درست پکار ہو۔ مثلا اگر کوئی شخص یہ دعا کرے کہ شیطان ہمیشہ کے لیے نابود ہوجائے تو ایسا کبھی ہونے والا نہیں۔ کیوں کہ اللہ کے فیصلے کے مطابق شیطان کو قیامت تک باقی رہنا ہے۔اسی طرح اگر کوئی شخص کسی گروہ کو اپنا دشمن فرض کرلے، اور یہ دعا کرے کہ میرے یہ تمام دشمن ہلاک ہوجائیں تو ایسی دعا بھی ہرگزقبول نہ ہوگی۔ کیوں کہ کسی گروہ کی ہلاکت کے لیے اللہ کا اپنا قانون ہے، اس کا تعلق کسی کی دعا سے نہیں۔
اسی طرح اگر کچھ لوگ کسی گروہ سے قومی لڑائی لڑیں اور یہ دعا کریں کہ خدایا تو اپنے وعدے کےمطابق ہمیں ان کے مقابلے میں اپنی نصرت عطا فرما۔ تو ایسی دعا بھی قبول ہونے والی نہیں۔ کیوں کہ اللہ کی نصرت اپنے قانون کے مطابق آتی ہے۔ ہمارے اپنے مفروضہ دشمنوں کے خلاف نہیں۔سچی دعا وہ ہے جو سچے انسان کے دل سے نکلے۔ اسی طرح دعا کی قبولیت اس وقت ہوتی ہے، جب کہ دعا اللہ کے راستے میں کامیابی کے لیے کی گئی ہو، نہ کہ خود ساختہ راستے میں کامیابی کےلیے۔ آدمی کو چاہیے کہ پہلے وہ اپنے آپ کو مزکیّٰ شخصیت بنائے۔ پھر وہ اللہ کے منصوبہ کو سمجھے، اور اللہ کے منصوبہ کے مطابق اپنے آپ کو اُس پر لگائے۔ جو لوگ اس شرط کو پورا کریں، ان کی دعا ضرور قبول ہوگی۔