فقہ الاقلیات
موجودہ زمانے میں تحریر و تقریر کے مختلف موضوعات پیدا ہوئے ہیں، ان میں سے ایک وہ ہے جس کو فقہ الاقلیات کہا جاتا ہے۔ یعنی جو مسلمان کسی ملک میں اقلیتی گروہ (minority community) کی حیثیت سے رہتے ہیں، ان کے مسائل اور ان کا اسلامی حل۔ اس موضوع پر کثیر تعداد میں مضامین لکھے گیے ہیں، اور مستقل کتابیں شائع کی گئی ہیں۔ مثلا ڈاکٹریوسف القرضاوی کی کتاب فی فقہ الأقلیات المسلمة (دارالشروق، مصر2001، صفحات 200) –۔
مسلم اقلیت کا لفظ ظاہر کرتا ہے کہ مسلمان دوسروں کے مقابلے میں کم ہیں۔ یہ ذہن مزید اضافہ کے ساتھ مسلمانوں کے اندر دوسروں کے خلاف شکایتی ذہن پیدا کرتاہے۔ اس کا آخری نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے اندر سے دعوتی ذہن کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ کیوں کہ دعوتی ذہن اور شکایتی ذہن، دونوں ایک ساتھ جمع نہیں ہوسکتے۔دعوتی ذہن کا مطلب ہے دوسروں کے ساتھ برابر کی خیرخواہی۔ جب کہ اقلیتی ذہن عملاً اس قسم کی نفسیات کا خاتمہ کردیتا ہے۔
اقلیتی ذہن ہمیشہ حقوق طلبی کا ذہن پیدا کرتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں دینے کا مزاج (giving spirit) کو ختم کرنا ہے، اور لینے کا مزاج (taking spirit) کو بڑھاوا دیناہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اقلیتی کمیونٹی اور اکثریتی کمیونٹی کی تفریق غیر فطری ہے۔ آپ قرآن کا مطالعہ کریں تو اس میں باربار انسان کا لفظ آتا ہے۔ قرآن میں انسان کا لفظ 64بار آیا ہے۔ گویا کہ قرآن کے مطابق، پوری دنیا دار الانسان ہے، وہ اقلیت کی دنیا اور اکثریت کی دنیا نہیں۔
موجودہ زمانہ انٹرنیشنلزم کا زمانہ ہے۔ موجودہ زمانے کی اسپرٹ اس قسم کی تفریق کے خلاف ہے۔ ایسی حالت میں یہ ایک غیر فطری بات ہے کہ مسلمانوں کے اندر کمتری کا احساس جگایا جائے۔ صحیح طریقہ یہ ہے کہ مسلمان دوسروں کی مانند اپنے آپ کو انسان سمجھیں، اور سب کے ساتھ برابری کا تعلق قائم کریں۔