اصلاح اور محاسبہ

ابو الدراء ایک انصاری صحابی ہیں۔ مدینہ میں پیدا ہوئے، اور 72 سال کی عمر میں اسکندریہ کے اندر 32 ھ میں ان کی وفات ہوئی۔ ان کا ایک قول اس طرح نقل کیا گیا ہے:لا یفقہ الرجل کل الفقہ حتى یمقت الناس فی جنب اللہ ثم یرجع إلى نفسہ فیکون لہا أشد مقتا (کنزالعمال، حدیث نمبر 29528)۔ یعنی کوئی آدمی اپنی سمجھ میں کامل نہیں ہوسکتا، حتی کہ اس کا یہ حال ہوجائے کہ وہ اللہ کے لیے دوسروں پرسخت ہو، پھر جب اپنی طرف توجہ کرے تو وہ اپنے لیے اس سے بھی زیادہ سخت ہو۔ دوسروں کا محاسبہ کرنا صرف اس کے لیے جائز ہے، جو خود اپنا محاسبہ اس سے بھی زیاد ہ سخت انداز میں کرتا ہو۔ جو شخص مومن ہوتا ہے، وہ مصلح بھی ہوتا ہے۔ یعنی اپنی اصلاح کے ساتھ دوسروں کی اصلاح کا طالب ہونا۔ جب وہ دوسروں کے اندر کوئی کمی کی بات دیکھتا ہے، تو اپنے احساس کے تقاضے کے تحت وہ مجبور ہوتا ہے کہ وہ نہایت واضح انداز میں اس کی نکیر کرے۔

اس طرح کی نکیر بلاشبہ ایک ثواب کا کام ہے۔ لیکن جو آدمی سچے جذبے کے ساتھ دوسروں کے بارے میں حساس ہو، وہ یقینا اپنے بارے میں شدید حساس ہوتا ہے۔ اس کی یہ حساسیت ایک طرف دوسروں کے بارے میں اس کو ناقد بناتی ہے۔ دوسری طرف یہی حساسیت اس کے اندر یہ سوچ پیدا کرتی ہے کہ اگر میں نے تنقید کرنے میں کوئی غلطی کی ہے تو اللہ یقینا میری سخت پکڑ کرے گا۔ مومن کی حساسیت اس کے اندر دو طرفہ صفت پیدا کرتی ہے۔ ایک طرف دوسروں کو نصیحت کرنااور دوسری طرف شدید انداز میں اپنا محاسبہ (introspection) کرنا۔ اس طرح مومن کی یہ دو طرفہ حساسیت اس کی شخصیت کی تعمیر میں معاون ہوتی ہے۔ ایک طرف یہ حساسیت اس کو اس قابل بناتی ہے کہ وہ درست انداز میں اصلاح کا کام کرے، اور دوسری طرف یہ حساسیت اس کو اس سے بچاتی ہے کہ وہ اس عمل میں کسی زیادتی سے اپنے آپ کو بچائے۔وہ دوسرے کی غلطی کو بتانے والا بھی بن جاتا ہے، اور اپنی غلطی کی اصلاح کرنے والا بھی۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom