عقل سے محرومی
ایک طویل حدیث میں امت مسلمہ کے دورِ زوال کی پیشین گوئی کی گئی ہے، اس حدیث کا ترجمہ یہ ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےکہا: قیامت کے قریب ہرج ہوگا۔ میں نے کہا اے اللہ کے رسول ہرج سے کیا مراد ہے ؟ آپ نےکہا: قتل۔ کسی نے پوچھا اے اللہ کے رسول ہم تو اب بھی ایک سال میں اتنے اتنے مشرکوں کو قتل کرتے ہیں۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس سے مراد مشرکوں کا قتل نہیں ہے، بلکہ تم میں سے بعض اپنے بعض کو قتل کرے گا، حتی کہ ایک آدمی اپنے پڑوسی کو، اپنے چچازاد بھائی کو،اور اپنے قرابت دار کو قتل کرے گا۔ لوگوں میں سے کسی نے کہا، اے اللہ کے رسول اس دور میں ہماری عقلیں ہمارے ساتھ ہوں گی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ نہیں۔ اس زمانہ میں اکثر لوگوں کی عقلیں چھن جائیں گی، اور گر د وغبار کی مانند لوگ باقی رہیں گے۔ ان کے پاس عقلیں نہیں ہوں گی۔ (سنن ابن ماجہ،حدیث نمبر 3959)
یہاں عقل چھننےسے مراد عقل کے درست استعمال کے لیے نااہل ہوجانا ہے۔ اس بنا پر ایسا ہوگا کہ لوگ ناحق طور پر ایک دوسرے کو قتل کرنے لگیں گے۔ مزید غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس حدیث میں بعد کے زمانے میں پیدا ہونے والے اس واقعہ کا ذکر ہے جب کہ امت اپنے دورِ زوال میں پہنچ جائے گی۔ اس کے اندر تقلیدی فکر بہت زیادہ عام ہوچکی ہوگی۔ لوگ اپنے روایتی اکابر کی سوچ سے باہر نکل کر سوچنے کے قابل نہ رہیں گے۔اس بنا پروہ اس صلاحیت سے محروم ہوجائیں گے کہ وہ اپنے زمانے کے بدلے ہوئے حالات کو سمجھیں، اورحالات کے مطابق اسلام کی تعلیمات کی تطبیق نو (reapplication) دریافت کرسکیں۔مثلا زمانے کی تبدیلی کے نتیجے میں جنگ کا دور ختم ہوجائے گا۔ نئے حالات میں ممکن ہوجائے گا کہ پرامن طریقہ کار کے ذریعہ وہ سب کچھ حاصل کیا جاسکے، جس کو پچھلے دور میں ’’سیف‘‘ کے ذریعہ ممکن سمجھا جاتا تھا۔ مگر اجتہادی بصیرت کے فقدان کی بنا پر وہ اس تبدیلی کو سمجھنے سے محروم رہیں گے، اور اپنے عمل کی پر امن منصوبہ بندی نہ کرسکیں گے۔