دجالیت کیا ہے
دجالیت کوئی بھیانک یا پر اسرار لفظ نہیں۔ دجالیت ایک معلوم حقیقت کا نام ہے۔ دجالیت عین وہی چیز ہے، جس کو قرآن میں تزئین اعمال (الانعام:43) کہا گیا ہے۔ مختصر الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ ایک بات کو ایسے ڈیسپٹو (deceptive) انداز میں بیان کرنا کہ ایک غلط بات، سننے والے کو درست نظر آنے لگے۔یہی تزئین ہے، اور اس آرٹ کو زیادہ ہنرمندی کے ساتھ کہنے کا نام دجالیت ہے۔
مثلا موجودہ زمانے میں کچھ مسلمان خودکش بمباری (suicide bombing)کرتے ہیں۔ اس طریقے کو جائز بتانے کے لیے وہ کہتے ہیں کہ جب قوم شدید خطرے کی حالت میں ہو تو قوم کو بچانے کے لیے خودکش بمباری جائز ہے۔ اس کی مثال وہ یہ دیتے ہیں کہ دوسری عالمی جنگ کے موقع پر جاپانیوں نے امریکا کے خلاف خود کش بمباری کا طریقہ اختیار کیاتھا۔ مگر یہ استدلال ایک مغالطہ پر قائم ہے۔ اس لیے کہ جاپانیوں کی خودکش بمباری (hara-kiri) سے جاپانی قوم اپنے دشمن کے مقابلے میں بچ نہ سکی، بلکہ وہ اس جنگ میں بدترین شکست سے دوچار ہوئے۔ اس کے بعد خود جاپانیوں نے اس طریقے کو چھوڑدیا۔ اور اس کے بجائےپرامن انداز میں اپنی قومی ترقی کے لیے عمل کیا اور نہایت کامیاب رہے۔
اسی طرح موجودہ زمانے کے کچھ مسلمان اپنے مفروضہ دشمنوں کے خلاف تشدد کا طریقہ اختیار کیے ہوئے ہیں، چناں چہ ان کو دہشت گرد (terrorist) کہا جاتا ہے۔ اب اگر آپ کہیں کہ یہ دہشت گردی نہیں ہے، بلکہ وہ ظالم لوگوں کو ٹرارائز (terrorize) کرنا ہے۔ یہی بات پولیس کرتی ہے۔ وہ مجرموں (criminals) کا حوصلہ توڑنے کے لیے ان کو ٹرارائز کرتی ہے۔ جس طرح پولیس کے لیے یہ طریقہ ایک درست طریقہ سمجھا جاتا تھا، اسی طرح مسلمانوں کے لیے بھی یہ طریقہ ایک درست طریقہ ہے۔اسی طرح آپ مزید یہ کہیں کہ جو لوگ مسلمانوں کے تشدد پر ان کو دہشت گرد کہتے ہیں، وہ دہرا معیار کا شکار ہیں۔ کیوں کہ انڈیا کے بھگت سنگھ نے 1929میں نئی دہلی میں انگریزوں کی اسمبلی پر بم مارا۔مگر بھگت سنگھ کو دہشت گرد نہیں کہاجاتا، فریڈم فائٹر کہا جاتا ہے۔ اسی طرح مسلمانوں کو بھی دہشت گرد نہ کہیے، بلکہ ان کو انصاف کی لڑائی لڑ نے والا کہیے۔
اسی طرح آپ مسلمانوں کی خودکش بمباری کی وکالت کریں، اور یہ کہیں کہ مسلمان جس اسپرٹ کے تحت یہ کام کررہے ہیں، وہ شہادت کی اسپرٹ ہے۔ اس لیے ان کی خودکش بمباری کا زیادہ درست نام استشہاد (طلب شہادت) ہے۔مگر یہ بات ایک شدید مغالطہ پر مبنی ہے۔ کیوں کہ شہادت ایک اسلامی لفظ ہے۔ اور قرآن یا حدیث میں کہیں بھی، یہ تعلیم نہیں ہے کہ اہل ایمان اپنےآپ کو مارکر شہید بنیں۔ اسلام میں شہید ہوجانا ہے، نہ کہ شہید کروانا۔
دجل بمعنی تزئین ہمیشہ دنیا میں جاری رہا ہے۔ حدیث میں یہ کہا گیا ہے کہ بعد کے زمانے میں ایک دجال (بڑا دجال)پیدا ہوگا۔ یہ بڑا دجال (the great deceiver) اپنی ذات کے اعتبار سے بڑا دجال نہیں ہوگا۔ بلکہ وہ زمانے کے اعتبار سے بڑا دجال ہوگا۔ یعنی اس کو ایک ایسا ترقی یافتہ زمانہ ملے گا، جب کہ وہ نئے وسائل کی مدد سے زیادہ بڑے درجے کی دجالی کرسکے گا۔
مثال کے طور پر دجال کے بارے میں حدیث رسول میں آیا ہے: ینادی بصوت لہ یسمع بہ ما بین الخافقین(کنزالعمال، حدیث نمبر39709)۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ دجال کوئی ہمالیائی شخصیت ہوگی، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ دجال ایک ایسے زمانے میں ظاہر ہوگا، جب کہ عالمی مواصلات (global communication) کا دور آچکا ہوگا، اور وہ اپنے وقت کے وسائل کو استعمال کرکے عالمی سطح پر اپنی آواز پہنچاسکے گا۔
حدیث میں آتا ہے: مکتوب بین عینیہ ک ف ر (صحیح مسلم، حدیث نمبر2933)۔ یعنی دجال کی دونوں آنکھوں کے درمیان ک ف ر (کفر)لکھا ہوا ہوگا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دجال اگرچہ اپنی غلط باتوں کو نہایت مزین کرکے پیش کرے گا، لیکن صاحب معرفت لوگ اس کی غلطی کو پہچان لیں گے، اس طرح وہ اس کی گمراہی سے بچ جائیں گے۔