کنڈیشننگ کا مسئلہ

پیغمبر اسلام کی پیدائش 570 ء میں مکہ میں ہوئی۔ آپ نے نبوت کا مشن 610ء میں شروع کیا۔ 632ء میں مدینہ میں آپ کی وفات ہوئی۔ وفات سے کچھ ماہ پہلے، آپ نے حجۃ الوداع کے موقع پر اس وقت کے اہل اسلام کو عمومی خطاب کیا، جو بالواسطہ طور پر پوری امت مسلمہ سے خطاب کے ہم معنی تھا۔اس خطاب کے بارے میں ایک روایت ان الفاظ میں آئی ہے:أن رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم خطب الناس یوم النحر فقال:یا أیہا الناس أی یوم ہذا؟، قالوا:یوم حرام، قال:فأی بلد ہذا؟، قالوا:بلد حرام، قال:فأی شہر ہذا؟، قالوا:شہر حرام، قال:فإن دماءکم وأموالکم وأعراضکم علیکم حرام، کحرمة یومکم ہذا، فی بلدکم ہذا، فی شہرکم ہذا، فأعادہا مرارا، ثم رفع رأسہ فقال:اللہم ہل بلغت، اللہم ہل بلغت - قال ابن عباس:فوالذی نفسی بیدہ، إنہا لوصیتہ إلى أمتہ، فلیبلغ الشاہد الغائب، لا ترجعوا بعدی کفارا، یضرب بعضکم رقاب بعض (صحیح البخاری، حدیث نمبر1739)۔

عبد اللہ ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوم النحر کے دن خطبہ دیا۔ آپ نے پوچھاکہ اے لوگو، یہ کون سا دن ہے ؟ لوگوں نے جواب دیا یہ یوم حرام ہے، آپ نے پوچھا کہ یہ کون سا شہر ہے ؟ لوگوں نے جواب دیا یہ شہر حرام ہے، آپ نے پوچھا کہ یہ کون سا مہینہ ہے ؟ لوگوں نے جواب دیا یہ حرام کا مہینہ ہے۔ آپ نے فرمایا تمہارا خون اور تمہارے مال اور تمہاری آبرو تم پر حرام ہے، جس طرح یہ دن تمہارے اس شہر میں اور تمہارے اس مہینہ میں حرام ہے۔ آپ نے یہ کلمات چند بار دہرائے۔ پھر اپنا سر آسمان کی طرف اٹھا کر فرمایا اے اللہ، کیا میں نے پہنچا دیا۔ اے اللہ، کیا میں نے پہنچا دیا۔ عبد اللہ ابن عباس نے کہا، قسم اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے، آپ نے اپنی امت کو یہی وصیت فرمائی تھی کہ جو لوگ حاضر ہیں وہ ان لوگوں کو پہنچادیں جو یہاں موجود نہیں ہیں، میرے بعد تم لوگ کفر کی طرف نہ لوٹ جانا کہ تم میں سے بعض، بعض کی گردن مارنے لگے۔

اس حدیث میں کفر کا لفظ شدت اظہار کی بنا پر ہے۔ باعتبار حقیقت اس سے مراد یہ ہے کہ دور جاہلیت کی طرف لوٹ نہ جانا۔ اسلام سے پہلے عرب میں جو دور تھا، اس کو جاہلیت کا دور کہا جاتا ہے۔ اس زمانے میں عرب میں قبائلی دور (tribal age) قائم تھا۔ قبائلی دور کا کلچر قتل و قتال کا کلچر تھا۔ ابوتمام حبیب بن أوس الطائی نے اپنے انتخابی مجموعہ دیوان الحماسہ میں ایک جاہلی شاعر کا ایک شعر اس طرح نقل کیا گیا ہے:

وأحیاناً على بکرٍ أخینا          إذا ما لم نجد إلا أخانا

یعنی اور کبھی ہم اپنے بھائی بکر سے لڑ جاتے ہیں۔جب کہ ہمیں لڑنےکے لیے اپنےبھائی کے سوا کوئی اور نہیں ملتا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مذکورہ نصیحت کا پس منظر یہ ہے کہ یہ لوگ جن کی پرورش عرب کے قبائلی ماحول میں ہوئی ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ اپنی سابقہ کنڈیشننگ کو ڈی کنڈیشن نہ کر پائیں اور دوبارہ ان کے اندر جنگ و جدال کا کلچر شروع ہوجائے۔ ابتدائی دور کے اہل ایمان کے لیے اس کنڈیشنگ کا مطلب عرب کے قدیم ماحول کی کنڈیشننگ ہے۔ اس کنڈیشننگ کی بنا پر ان کے اندر بعد کے زمانے میں لڑائیاں شروع ہوگئیں۔ موجودہ زمانے کے مسلمان جودوبارہ جنگ و تشدد کے کلچر میں مشغول ہیں، وہ بھی اسی کنڈیشننگ کی بنا پر ہیں۔ فرق یہ ہے کہ موجودہ زمانے کے مسلمانوں کی کنڈیشننگ تاریخی کنڈیشننگ (historical conditioning) ہے۔

عباسی دور میں جو کتابیں تیار ہوئیں، وہ اس تاریخی کنڈیشننگ کا ذریعہ بن گئیں۔ اس زمانے میں یہ ہوا کہ سیرت رسول کی کتابیں مغازی کے پیٹرن پر لکھی گئیں۔ مسلم تاریخ پوری کی پوری فتوح الشام اور فتوح البلدان کی زبان میں تیار ہوئی۔ بعدکا پورا لٹریچر عملاًاسی اسلوب میں ڈھل گیا۔ اس کی ایک مثال ایک مسلم شاعر کا یہ شعر ہے:

ابھی بھولے نہیں ہم خالد و طارق کے افسانے      فتوحات صلاح الدیں ابھی زندہ ہیں دنیا میں

بعد کے زمانے میں مسلمانوں کے درمیان جو کتابیں لکھی گئیں، وہ تقریبا سب کی سب اسی پیٹرن پر لکھی گئیں، خواہ وہ منظوم کتابیں ہوں یا منثورکتابیں۔ بعد کےمسلمان پیدا ہوتے ہی اسی قسم کی کتابیں پڑھنے لگے۔ اس طرح وہ دوبارہ بذریعہ لٹریچر اسی قسم کی کنڈیشننگ میں مبتلا ہوگیے جس کو تاریخی کنڈیشننگ کہاجاسکتا ہے— موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے اندر جو نفرت اور تشدد کی سوچ ہے، وہ اسی تاریخی کنڈیشننگ کا نتیجہ ہے۔

ڈی کنڈیشننگ کیا ہے۔ ڈی کنڈیشننگ کا عمل آدمی خود اپنے آپ پر کرتا ہے۔ ڈی کنڈیشننگ کو روایتی اصطلاح میں محاسبہ نفس کہا جاسکتا ہے۔ اس محاسبہ خویش (self-deconditioning) کی صورت یہ ہوتی ہے کہ آدمی خود اپنا بے لاگ مطالعہ کرے، اور اپنے آپ کو ان اثرات سے پاک کرے جو تاریخی طور پر اس کی سوچ کا حصہ بن گیے ہیں۔

مثلا مذکورہ معاملہ میں آدمی یہ سوچے کہ قتال کی نوعیت اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں کیا ہے۔ پھر وہ پائے گا کہ قتال کوئی ابدی عمل نہیں۔ اس کا ایک اختتام (end) ہے۔ جیسا کہ قرآن میں آیا ہے:وَقَاتِلُوہُمْ حَتَّى لَا تَکُونَ فِتْنَةٌ (الانفال:39) اور جیسا کہ قرآن میں آیا ہے: حَتَّى تَضَعَ الْحَرْبُ أَوْزَارَہَا (محمد: 4)۔

قرآن اور حدیث میں اس طرح کے متعدد حوالے موجود ہیں، جو یہ بتاتے ہیں کہ قتال حسن لذاتہ نہیں ہے، بلکہ حسن لغیرہ ہے۔ یعنی اسلام میں قتال برائے قتال (qital for the sake of qital) نہیں ہے، بلکہ قتال کسی متعین سبب کے لیے ہے۔ جب یہ سبب ختم ہوجائے تو قتال بھی ختم ہوجائے گا۔ اس طرح سوچنے کے عمل کو اپنا محاسبہ کہا جاتاہے۔

موجودہ زمانے میں جو مسلمان یہ کررہے ہیں کہ وہ دوسری قوموں کو اپنا دشمن قرار دے کر ان کے خلاف متشددانہ کارروائی یا خودکش بمباری (suicide bombing)کررہے ہیں، وہ اگر اس طرح غور کریں تو یقیناً ان کا موجودہ سوچنے کا طریقہ بدل جائے گا۔ اسی کو ڈی کنڈیشننگ کہا جاتا ہے۔ اگر موجودہ زمانے کے مسلمان اس طرح بے لاگ انداز میں غور کریں تویقینا وہ ایک اور حدیث تک پہنچیں گے جو براہ راست طور پر اسی معاملے سے متعلق ہے۔ یہ حدیث بتاتی ہے کہ بعد کے زمانے میں ایک وقت آنے والا ہے، جب کہ ساری دنیا مویددین بن جائے۔ اس حدیث کے الفاظ یہ ہیں: إن اللہ عز وجل لیؤید الإسلام برجال ما ہم من أہلہ(المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر14640)۔ مسند احمد میں یہ روایت اس طرح آئی ہے:إن اللہ سیؤید ہذا الدین بأقوام لا خلاق لہم (حدیث نمبر20454)۔ صحیح البخاری میں یہ روایت ان الفاظ میں ہے:إن اللہ لیؤید ہذا الدین بالرجل الفاجر(حدیث نمبر3062)۔

یہ حدیث مستقبل کے بارے میں پیغمبر اسلام کی ایک پیشگی خبر ہے۔ اس حدیث کی روشنی میں تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ رسول اور اصحاب رسول کی کوششوں سے ساتویں صدی عیسوی میں جو انقلاب آیا، اس کے بعد دنیا میں ایک تاریخی عمل (historical process) بڑے پیمانے پر جاری ہوگیا۔ اس تاریخی عمل میں نہ صرف مسلمان بلکہ دوسری سیکولر قومیں بالخصوص اہل مغرب بڑے پیمانے پر شریک ہوئیں۔ بیسویں صدی اس عمل کا نقطہ انتہا (culmination) تھا۔ اس عمل (process) نے انسانی تاریخ میں ایک نیا دور پیدا کردیا۔ اسی نئے دور کو حدیث میں دین کے حق میں تائید کا دور کہا گیا ہے۔

 

بارش کا آنا خدا کے منصوبے کا خاموش اعلان ہے۔ کسان اس خدائی اشارہ کو فوراً سمجھ لیتا ہے، اور اپنے آپ کو اس خدائی منصوبہ میں پوری طرح شامل کردیتا ہے۔ اس کا نتیجہ اس کو ایک لہلہاتی ہوئی فصل کی صورت میں واپس ملتا ہے۔ اسی طرح موجودہ زمانہ میں، ہزار سالہ عمل کے نتیجے میں، اللہ تعالی نے اپنے دین کے حق میں نئے مواقع کھولے ہیں۔ یہ مواقع کہ اقتدار کا حریف بنے بغیر توحید اور آخرت کی دعوت کو عام کیا جائے۔ (اسلام پندرھویں صدی میں )

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom