دین میں غلو
ایک روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے۔ اس کا ترجمہ یہ ہے:دین میں غلو سےبچو ( إیاکم والغلو)کیونکہ تم سے پہلے جو لوگ تھے، وہ دین میں غلو کیوجہ سے ہلاک ہوگئے(مسند احمد، حدیث نمبر 3248)۔ غلو کا لفظی مطلب انتہاپسندی (extremism)ہے۔ انتہا پسندی ہمیشہ تباہی کا ذریعہ بنتی ہے۔ اصل یہ ہے کہ دین کے دو حصے ہیں۔ ایک ہے بنیادی حصہ (basics)، اور دوسرا ہے جزئی حصہ (non-basics)۔ دین کے بنیادی حصے پر اگر زور دیا جائے تو اس سے دین میں کوئی خرابی پیدا نہ ہوگی۔ لیکن جب دین کے غیر بنیادی حصہ پر زیادہ زور دیا جانے لگے تو اسی سے غلو پید ا ہوتا ہے،اور تباہی کا ذریعہ بن جاتا ہے۔مثلاً دین میں اصل اہمیت روح (spirit) کی ہے، اور اس کا جو فارم (form)ہے، وہ اصل کے مقابلے میں جزئی حیثیت رکھتا ہے۔ مثلاً نماز میں خشوع کی حیثیت بنیادی ہے، اور نماز کا جو فارم ہے، وہ اس کے مقابلے میں غیر بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر نماز کے فارم پر بہت زیادہ زور دیا جانے لگے، اور اسی پر نماز کے ہونے یا نہ ہونے کا انحصار قرار پائے تو یہ غلو ہوگا۔ اس غلو کا نتیجہ یہ ہوگا کہ لوگ نماز کے فارم پر تو بہت زیادہ دھیان دیں گے، لیکن نماز کی روح ان کے یہاں عملاً غیر اہم بن جائے گی۔ اسی شدت پسندی کو حدیث میں ہلاکت کہا گیا ہے۔
دین کی رو ح ہمیشہ ایک ہوتی ہے۔ البتہ دین کے فارم میں فرق ہوتا ہے۔ دین کی روح پر اگر زور دیا جائے تو اس سے کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوگا۔ لیکن اگر اس کے فارم پر زیادہ زور دیا جانے لگے تو فرقے پیدا ہوجائیں گے۔ کیوں کہ روح میں یکسانیت ممکن ہے، لیکن فارم کے معاملے میں یکسانیت ممکن نہیں۔ اس لیے صحیح طریقہ یہ ہے کہ فارم کے معاملے میں تعدد (diversity) کے اصول کو مان لیا جائے۔ یعنی یہ بھی درست اور وہ بھی درست۔ مثلاً نماز میں آمین بالسر بھی درست اور آمین بالجہر بھی درست۔ مصافحہ میں، ایک ہاتھ سے مصافحہ کرنا بھی درست اور دو ہاتھ سے مصافحہ کرنا بھی درست، وغیرہ۔ اگر فارم میں تعدد کے اصول کو مان لیا جائے تو دین میں کبھی فرقہ بندی نہیں ہوگی۔