حضرت عائشہ کا نکاح
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا پہلا نکاح حضرت خدیجہ سے ہوا۔ خدیجہ مکہ کی ایک بااثر خاتون تھیں۔ اس بنا پر اس نکا ح سے پیغمبر اسلام کو مکہ میں ایک مضبوط سماجی بنیاد (social base) حاصل ہوگئی۔ مکہ میں یہ سماجی بنیاد آپ کو تقریبا 25 سال حاصل رہی۔ آپ ایک صاحب مشن تھے، اوراپنے مشن کو کامیابی کے ساتھ چلانے کے لیے ضروری ہے کہ صاحب مشن کو مضبوط سماجی بنیاد حاصل ہو۔
حضرت خدیجہ کی وفات کے بعد پیغمبر اسلام کا دوسرا نکاح حضرت عائشہ سے ہوا۔ یہ نکاح مکی دور کے آخری زمانے میں ہوا، اور ہجرت کے بعد مدینہ میں ان کی رخصتی ہوئی۔ اس وقت عائشہ کی عمر نو سال تھی، اور پیغمبر اسلام کی عمر 53سال۔ عمر کے اس فرق کو لے کر لوگوں کے درمیان بہت بحثیں جاری ہیں۔ لوگ طرح طرح کی تاویلیں کرتے ہیں، جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ہے۔
اصل یہ ہے کہ یہ معاملہ صرف نکاح کا معاملہ نہیں تھا، بلکہ حضرت خدیجہ کی وفات کے بعد بطور واقعہ یہ ایک نئی سوشل بنیاد حاصل کرنے کا معاملہ تھا۔ حضرت عائشہ سے نکاح کے بعد، پیغمبر اسلام کو ان کے باپ کی صورت میں ایک نئی مضبوط تر بنیاد حاصل ہوگئی۔ جیسا کہ تاریخی طور پر معلوم ہے، حضرت ابوبکر صدیق آپ کی زندگی میں بھی آپ کے مضبوط ساتھی بنے رہے، اور آپ کی وفات کے بعد بھی انھوں نے اسلام کے ابتدائی دور میں اسلام کے استحکام (stability) کے لیے نہایت اہم رول ادا کیا۔
فطرت کے نظام کے تحت ہر انسان کو کامیاب زندگی کے لیے سماجی بنیاد کی ضرورت ہوتی ہے۔ قرآن کے مطابق یہ سماجی بنیاد دو طریقوں سے حاصل ہوتی ہے۔ ایک خونی رشتہ، اور دوسرا، نکاح کا رشتہ(الفرقان:54)۔ فطرت کے نظام کے تحت یہی دو چیزیں مضبوط سماجی بنیاد کا ذریعہ ہیں۔ہر انسان انھیں دو رشتوں کی مدد سے سماج میں مضبوط بنیاد حاصل کرتا ہے۔ اس سماجی بنیاد کی ضرورت ہر انسان کو ہوتی ہے، حتی کہ پیغمبر کو بھی۔یہ فطرت کا نظام ہے، اور فطرت کے نظام میں کوئی تبدیلی ممکن نہیں۔
قرآن کی ایک رہنما آیت ان الفاظ میں آئی ہے:وَہُوَ الَّذِی خَلَقَ مِنَ الْمَاءِ بَشَرًا فَجَعَلَہُ نَسَبًا وَصِہْرًا وَکَانَ رَبُّکَ قَدِیرًا (25:54)۔ یعنی اور وہی ہے جس نے انسان کو پانی سے پیدا کیا۔ پھر اس کو خاندان والا اور صہر والا بنایا۔ اور تمہارا رب بڑی قدرت والا ہے۔
قرآن کی اس آیت میں خالق نے انسان کے اوپر اپنی ایک نعمت کو بتایا ہے۔ انسان کے درمیان دو طریقوں سے تعلقات قائم ہوتے ہیں، ایک خونی رشتہ (blood relationship ) اور دوسرا صہر یعنی نکاح کا رشتہ (marriage relationship)۔ انھیں فطری بنیادوں پر انسانی سماج (human society) قائم ہے۔ اگر یہ دو فطری عوامل نہ ہوں تو انسان کی زندگی حیوان کی مانند جنگل کی زندگی بن جائے۔ یہ فطری تعلقات دنیا کی زندگی میں انسان کے لیے سماجی بنیاد فراہم کرتے ہیں۔ اس پہلو کی طرف اشارہ قرآن کی ایک آیت میں رھط (family)کے لفظ سے کیا گیا ہے۔ قرآن کی وہ آیت یہ ہے:قَالُوا یَاشُعَیْبُ مَا نَفْقَہُ کَثِیرًا مِمَّا تَقُولُ وَإِنَّا لَنَرَاکَ فِینَا ضَعِیفًا وَلَوْلَا رَہْطُکَ لَرَجَمْنَاکَ وَمَا أَنْتَ عَلَیْنَا بِعَزِیزٍ (11:91)۔یعنی انھوں نے کہا کہ اے شعیب، جو تم کہتے ہو، اس کا بہت سا حصہ ہماری سمجھ میں نہیں آتا۔ اور ہم تو دیکھتے ہیں کہ تو ہم میں کمزور ہے۔ اور اگر تمھارا خاندان نہ ہوتا تو ہم تم کو سنگسار کردیتے۔ اور ہم تمھیں صاحب حیثیت نہیں سمجھتے۔
قرآن کے اس حوالے سے مذکورہ توجیہہ کی تصدیق ہوتی ہے۔ مکی دور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس قسم کی تائیدات برابر ملتی رہیں۔ پہلے بنو ہاشم، اس کے بعد خدیجہ کا خاندان، اس کے بعد حضرت ابوبکر کا خاندان۔ یہ رسول اللہ کے لیے ایک فطری تائید تھی، جو نسبی اور صہری تعلقات کی بنیاد پر آپ کو حاصل ہوئی۔ حضرت عائشہ کے ساتھ آپ کے نکاح کو اس پس منظر میں دیکھا جائے تو وہ نہایت بامعنی نظر آئے گا۔ خاص طور پر حضرت ابوبکر صدیق کا معاملہ بہت زیادہ اہم ہے۔ وہ رسول اللہ کی زندگی میں آپ کے ایک اہم ساتھی بنے، اور رسول اللہ کی زندگی کے بعد بھی انھوں نےخلیفہ کی صورت میں اسلام کے استحکام کے لیے نہایت اہم رول ادا کیا۔