دیباچہ
زیر نظر کتاب راقم الحروف کی ان تحریروں کا مجموعہ ہے، جو ماہنامہ الرسالہ میں سوال و جواب کے کالم کے تحت چھپتے رہے ہیں۔ اس مجموعہ کو برادرم اصطفاء علی صاحب نے کولکاتا ٹیم کے تعاون سے تیار کیا ہے، اور کولکاتا ٹیم اس کو اپنے اہتمام کے ساتھ اس کو شائع کررہی ہے۔ ان لوگوں کی یہ کوشش بلاشبہ ایک مستحسن کوشش ہے۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالی ان تمام لوگوں کو اس کام کے لیے جزائے خیر عطا فرمائے، اور اس کے پڑھنے والوں کے لیے یہ مجموعہ ان کی زندگی کے لیے مفید ثابت ہو۔ آمین
سوال و جواب کا طریقہ بہت قدیم طریقہ ہے۔ یہ طریقہ اپنے اندر بہت سے فوائد رکھتا ہے۔ سوال کرنے والے کے لیے بھی، اور جواب دینے والے کے لیے بھی۔ حقیقت یہ ہے کہ سوال و جواب ایک باہمی تعلم (mutual learning) کا طریقہ ہے۔ اس طریقے میں سائل اور مجیب دونوں کے لیے یہ موقع ہوتا ہے کہ وہ مزید مطالعہ کے ذریعہ اپنے علم میں اضافہ کریں۔ وہ زیر بحث مسئلے کے نئے گوشوں کو دریافت کریں۔ اس طرح یہ طریقہ طرفَین کے لیے فکری ارتقا (intellectual development) کا ذریعہ ہے۔
اسلام میں سوال کے بجائے تدبراور تفکر پر زور دیا گیا ہے۔ حضرت خضر کے ساتھ حضرت موسی جب سفر پر روانہ ہوئے تو حضرت خضر نے حضرت موسی سے کہا:فَلَا تَسْأَلْنِی عَنْ شَیْء (18:70)۔ یعنی تو مجھ سے کسی چیز کے بارے میں سوال نہ کرنا۔اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سوال نہ کرو۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ذہن میں کوئی سوال آئے تو پہلےغور وفکر کرو۔ غور وفکر کرکے آدمی پہلے اپنے آپ کو ذہنی اعتبار سے تیار کرتا ہے۔ سوال کا جواب وہی شخص درست طور پر سمجھتا ہے، جو پہلے سے اپنے آپ کو ایک تیار ذہن (prepared mind) بنا چکا ہو۔
اس حقیقت کو حدیث میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ ایک صحابی کہتے ہیں: و عن کثرۃ السوال (مسند احمد، حدیث نمبر18232)۔ یعنی رسول اللہ نے زیادہ سوال سے منع کیا تھا۔سوال کی کثرت سے منع کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آدمی سوال نہ کرے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی پہلے خود سوال کے تقاضے کو پورا کرے، اس کے بعد وہ سوال کرے۔
اس معاملے میں صحیح طریقہ یہ ہے کہ سوال کرنے سے پہلے آدمی خود غور وفکر کرے۔ اس طرح اس کو ذہنی ارتقا (intellectual development) کا فائدہ حاصل ہوگا۔ اللہ تعالی نے انسان کے ذہن میں غیر معمولی صلاحیت پیدا کی ہے۔ یہ صلاحیت غور وفکر سے بڑھتی ہے۔ اپنے ذہن کو ترقی دینے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ آدمی مطالعہ اور غور وفکر کے ذریعہ اپنے ذہن کو تیار کرتا رہے۔ وہ اپنے اندر زیادہ سے زیادہ اخذ (grasp)کی صلاحیت پیدا کرے۔ وہ اپنے آپ کو اس قابل بنائے کہ کوئی شخص اس کے سوال کا جواب دے تو وہ اپنی طرف سے اس میں کچھ اضافہ کرسکے۔ حقیقی سائل وہ ہے جو جواب کو سن کر اس میں اپنی طرف سے اضافہ کرسکتا ہو۔
مذکورہ حدیث کا مطلب اگر لفظ بدل کربیا ن کیا جائے تو وہ یہ ہوگا— سوال کیوں کرتے ہو۔ اگر تمھارے ذہن میں کوئی سوال آیا ہے تو پہلے خود اپنے ذہن کو استعمال کرکے اس کا جواب معلوم کرنے کی کوشش کرو۔ سوال کو صرف سوال نہ سمجھو، بلکہ اس کو اپنے ذہنی ارتقا کا ذریعہ بناؤ۔ بات کو سن کر فوراً سوال کرنا، عجلت پسند ی کی علامت ہے۔ بات کو سن کر پہلے غور وفکر کرنا چاہیے۔ اگر غور وفکر سے وہ بات تک نہ پہنچے تو سمجھنا چاہیے کہ اس نے اپنے ذہن کو تیار کرنے میں کمی کی ہے۔ اس کی توجہ اس پر دینا چاہیے کہ وہ اپنے ذہن کو مزید تیار کرنے کی کوشش کرے۔
وحید الدین
نئی دہلی، 4 جنوری 2017
تعمیر کے لیے سب سے زیادہ جس کی ضرورت ہے، وہ ہے ایک سوچا سمجھا نقشۂ عمل، جس کے مطابق ہر ایک اپنے اپنے دائرہ میں سرگرم عمل ہو۔