تزکیہ کیا ہے
قرآن کے مطابق، جنت میں داخلہ ان افراد کو ملے گا، جنھوں نے دنیا میں اپنا تزکیہ کیا ہوگا۔ مثلا قرآن کی ایک آیت کے الفاظ یہ ہیں:قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَکَّاہَا (91:9)۔ یعنی وہ شخص کامیاب ہوا جس نے اپنا تزکیہ کیا۔ اور دوسری جگہ ہے:جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِی مِنْ تَحْتِہَا الْأَنْہَارُ خَالِدِینَ فِیہَا وَذَلِکَ جَزَاءُ مَنْ تَزَکَّى (20:76)۔ یعنی ان کے لئے ہمیشہ رہنے والے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی۔ وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے۔ اور یہ بدلہ ہے اس شخص کا جس نے اپنا تزکیہ کیا۔
تزکیہ کیا ہے۔ یہ ایک حدیث رسول کے مطالعے سے سمجھ میں آتا ہے۔ ایک حدیث میں بتایا گیا ہے کہ ہر انسان الفطرۃ پر پیدا کیا گیا ہے۔ مگر ماحول کے اثر سے وہ غیر فطری زندگی اختیار کرلیتا ہے(صحیح البخاری، حدیث نمبر1385)۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر آدمی پیدائشی طور پر مزکیّٰ شخصیت (فطرت صحیحہ) پر پیدا ہوتا ہے۔ لیکن ماحول کی کنڈیشننگ (conditioning) کی وجہ سے وہ ایک مصنوعی شخصیت بن جاتاہے۔ ایسی حالت میں تزکیہ یہ ہے کہ آدمی اپنے اس مسئلہ کو جانے اور اپنی ڈی کنڈیشننگ (deconditioning) کرکے دوبارہ اپنے آپ کو فطری شخصیت بنائے۔ یہی وہ فطری شخصیت ہے جو مزکّی شخصیت ہوگی۔
ڈی کنڈیشننگ دوسرے الفاظ میں سیلف کرِکشن (self-correction) کے عمل کا نام ہے۔ سیلف کرکشن یا ڈی کنڈیشننگ کا یہ کام کوئی دوسراشخص نہیں کرسکتا۔ یہ کام ہر آدمی کو خود کرنا پڑتا ہے۔ ہر عورت اور مرد کا پہلا فرض ہے کہ وہ اپنا محاسبہ (introspection) کرے۔ وہ ڈھونڈ ڈھونڈ کر اپنے اندر سے ہر ایسے آئٹم کو نکالے جو باعتبار پیدائش بظاہر اس کے اندر موجود نہ تھے۔ لیکن بعد کو وہ ماحول کی کنڈیشننگ کی بنا پر اس کی شخصیت کا حصہ بن گیے۔ جب کوئی شخص سنجیدگی کے ساتھ اپنی ڈی کنڈیشننگ کرے گا تو اس کے بعد اپنے آپ ایسا ہوگا کہ آدمی کی فطری شخصیت پاک ہوکر سامنے آجائے۔ اسی پاکیزہ شخصیت کا نام مزکّی شخصیت ہے۔