سوال و جواب
مقالات پڑھنے کے بعد "سوال وجواب " کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس میں حقِ اختلاف (right to dissent) کا پورا لحاظ رکھا گیا۔ بعض مقالات میں کچھ تنقیدی باتیں کہی گئی تھیں۔ نیز سفر کے دوران پٹنہ میں بہت سے لوگوں سے ملاقاتیں ہوئیں۔ انہوں نے بھی مختلف قسم کے سوال یااعتراض کیے۔ ان سب کا تذکرہ یکجا طور پر یہاں کیا جاتا ہے۔
ایک صاحب نے کہا کہ آپ اپنی صبر و اعراض کی پالیسی کے لیے صلح حدیبیہ کی مثال دیتے ہیں۔ حالاں کہ حدیبیہ میں تو جہاد و قتال کی بیعت ہوئی تھی جس کو بیعت الرضوان کہا جاتا ہے۔
میں نے کہا کہ اصل یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم حد یبیہ میں معاہدۂ امن کی بات چلا رہے تھے۔ اس درمیان میں یہ خبر مشہور ہوئی کہ مکہ کے لوگوں نے حضرت عثمان بن عفان کو قتل کر دیا ہے۔ اس وقت آپ نے صحابہ سے وہ بیعت لی جس کو بیعت الرضوان کہا جاتا ہے۔ صحابی کہتے ہیں کہ ہم نے آپ سے یہ بیعت موت پر نہیں کی تھی بلکہ اس امر پر کی تھی کہ ہم فرار کی راہ نہیں اختیار کریں گے (لم يبايعنا على الموت ولكن بايعنا على أن لا نفرّ)(البدایہ والنہایہ، ۱۶۸/۴)
اگر اس بیعت کو قتال کے معنی میں لیں تو نعوذ باللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور تمام صحابہ نے اس کے خلاف عمل کیا۔ کیوں کہ وہ جنگ نہ کر کے عمرہ کیے بغیر مدینہ واپس آگئے۔ اصل یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود تو ساری کوشش معاہدۂ امن کے لیے کر رہے تھے۔ مگر حضرت عثمان کے قتل کی خبر جو غلط تھی، اس سے وقتی طور پر یہ اندازہ ہوا کہ قریش جنگ پر تلے ہوئے ہیں، اس لیے آپ نے صحابہ سے بیعت لی کہ اگر ہمارے اوپر جنگ تھوپی گئی تو ہم پیچھے نہیں ہٹیں گے بلکہ مقابلہ کریں گے۔
اس سے یہ اصول ملتا ہے کہ اگر انتخاب امن اور جنگ کے درمیان ہو تو ہر قیمت پر امن کا انتخاب کیا جائے گا اور جنگ کا طریقہ چھوڑ دیا جائے گا۔ لیکن اگر انتخاب فرار اور جنگ کے درمیان پیش آجائے تو فرار نہیں کیا جائے گا بلکہ متحد ہو کر دشمن کا مقابلہ کیا جائے گا۔
ایک صاحب نے کہا کہ آپ فرقہ وارانہ فسادات میں ہمیشہ مسلمانوں کو ذمہ دار ٹھہر اتے ہیں۔ یہ کہاں تک درست ہے۔ میں نے کہا کہ یہ ہماری بات کی صحیح ترجمانی نہیں۔ الرسالہ میں جو بات کہی گئی ہے وہ یہ کہ دوسری غلطی نہ کیجیے (الر سالہ، جنوری ۱۹۹۰ صفحہ ۳۲) اس دنیا میں "پہلی غلطی "بہر حال کی جاتی ہے۔ ہندستان میں اگر ہندو کرتا ہے تو پاکستان میں مسلمان کرے گا۔ پہلی غلطی اس دنیا میں بہر حال ہونے والی ہے۔ اس کے بعد اگر دوسری غلطی نہ کی جائے تو بات اپنے ابتدائی مرحلہ میں ختم ہو جاتی ہے۔ اور اگر بے صبر ہو کر دوسری غلطی کر دی جائے تو بات بڑھتی ہے یہاں تک کہ فساد اور ہلاکت کی نوبت آجاتی ہے۔ اس لیے عقلمند وہ ہے جو پہلی غلطی کو برداشت کرلے۔ اور دوسری غلطی کرنے کی غلطی نہ کرے۔ یہی اس دنیا میں کامیاب زندگی حاصل کرنے کا واحد راز ہے، ہندستان میں بھی اور ہندستان کے باہر بھی۔
ایک صاحب نے کہا کہ آپ کی کتابوں کی قیمت زیادہ ہوتی ہے۔ میں نے کہا کہ کتابوں کی قیمت زیادہ ہوتی نہیں بلکہ زیادہ لگتی ہے۔ اصل یہ ہے کہ ہمارے یہاں خرید کر پڑھنے کا مزاج نہیں۔ لوگ چاہتے ہیں کہ بس مفت لے کر پڑھ لیں۔ اور جب مفت پڑھنے کا مزاج ہو تو جو بھی قیمت رکھی جائے و ہی لوگوں کو زیادہ معلوم ہوگی۔
ایک صاحب نے کہا کہ الرسالہ بیک سیٹ پر بیٹھنے کے لیے کہتا ہے۔ کیا اس سے پوری قوم شکست خوردگی اور پسماندگی کا شکار نہیں ہو جائے گی۔ میں نے کہا کہ"بیک سیٹ " کا لفظ علامتی طور پر صرف وقتی تدبیر کے معنی میں ہے۔ اس کا مطلب ہے ابتدائی مرحلہ میں کم پر راضی ہونا تاکہ زیادہ کے لیے جدو جہد کی جاسکے۔ یہ ہر با مقصد انسان کا طریقہ ہے۔ ہر آدمی جو کسی بڑے مقصد تک پہنچنا چاہتا ہو وہ ابتداء ً پہلے زینہ پر قدم جمانے کے لیے اپنے آپ کو راضی کرتا ہے۔ جو آدمی ابتدائی مرحلہ میں پہلے زینہ پر اپنا قدم رکھنے پر راضی نہ ہو وہ کبھی اگلے زینہ پر پہنچنے کی سعادت حاصل نہیں کر سکتا۔ اس قسم کی رضا مندی اس دنیا میں وقفہ ٔ تعمیر حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے۔
مثال کے طور پر ایک باپ اگر صرف میٹرک پاس ہو تو اس کو کلرک بننے پر راضی ہونا پڑے گا تا کہ وہ اپنے بیٹے کو اعلیٰ تعلیم دلانے کے قابل ہو سکے۔ ایسا باپ اگر اپنے آپ کو "بیک سیٹ" پر بیٹھنے کے لیے راضی نہ کرے تو وہ اپنے بیٹے کو اگلی سیٹ تک پہنچانے کا خواب پورانہیں کر سکے گا۔ یہ در اصل تدبیر ِکار کا مسئلہ ہے نہ کہ ہمیشہ کے لیے پس ماندہ بن جانے کا مسئلہ۔
ایک صاحب نے کہا کہ آپ کہتے ہیں کہ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ ہندوؤں کے جلوس کو اپنے محلہ سے یا مسجد کے سامنے سے گزرنے دیں۔ یہ تو بڑی بے غیرتی کی بات ہے۔ وہ لوگ اشتعال انگیزالفاظ بولتے ہیں۔ پھر ہم کیسے ان کو اپنے علاقہ سے گزرنے دیں۔
میں نے کہا کہ اصل یہ ہے کہ اس دنیا میں آدمی کے لیے ہمیشہ دو میں سے ایک کا چوائس ہوتا ہے مگروہ تیسرا چوائس لینا چاہتا ہے جو ممکن نہیں۔ جلوس کے معاملہ میں ہم کو دو میں سے ایک کا چوائس ہے۔ یا تو جلوس کو برداشت کریں یا فساد کو۔ مگر ہم تیسرا چوائس لینا چاہتے ہیں۔ وہ یہ کہ سرے سے جلوس ہی کو نکلنے نہ دیں جو ناممکن ہے۔ اچھی طرح جان لیجیے کہ یہ ہمارے لیے جلوس اور بے جلوس میں انتخاب کا کا معاملہ نہیں ہے۔ بلکہ جلوس اور فساد میں انتخاب کا معاملہ ہے۔ اب آپ سوچ لیجیے کہ دونوں میں سے کون سا آپ کے لیے اَہون ہے۔
ایک صاحب نے کہا کہ آپ ہر ایک کے اوپر تنقید کرتے ہیں۔ کیا کوئی ہے جو آپ کے نزدیک صحیح ہو۔ میں نے کہا کہ یہ صحیح اور غلط کا مسئلہ نہیں ہے، یہ آزادیٔ رائے کا مسئلہ ہے۔ اسلام میں ہر شخص کو اظہارِ رائے کی آزادی دی گئی ہے۔ چنانچہ صحابہ اور تابعین اور تبعِ تابعین کے زمانہ میں تنقید کا عام رواج تھا۔ لوگ سخت ترین الفاظ میں ایک دوسرے پر تنقید کرتے تھے مگر کبھی یہ نہیں کہا گیا کہ تنقیدنہ کرو۔ کیوں کہ تنقید کوختم کر نا تخلیقی فکر کوختم کر ناہے، اورجس قوم میں تخلیقی فکر کی صلاحیت نہ رہے وہ کبھی ترقی نہیں کر سکتی۔
اصل یہ ہے کہ یہاں بھی وہی چوائس (انتخاب) کا معاملہ ہے۔ ہمارے لیے صرف دو میں سے ایک کا چوائس ہے۔ تیسرے چوائس کا ہمارے لیے کوئی موقع نہیں۔ آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کے لیے تنقید اور بے تنقید میں چوائس ہے۔ حالاں کہ صحیح یہ ہے کہ آپ کے لیے تنقید اور ذہنی موت میں چوائس ہے۔ آپ اگر تنقید کوختم کر دیں تو اس کے بعد جو چیز آپ کے حصہ میں آئے گی وہ سادہ معنوں میں بے تنقید نہیں ہے بلکہ ذہنی موت ہے۔یعنی جمود اور منافقت۔
ایک صاحب نے کہا کہ الرسالہ میں صرف آپ کے مضامین ہوتے ہیں۔ کسی اور کا مضمون اس میں شائع نہیں ہوتا۔ اس طرح الرسالہ"وَن مین شو بن" گیا ہے۔ ایسا کیوں۔
میں نے کہا کہ الرسالہ ایک مشن ہے اور مشن میں ہمیشہ ایسا ہی ہوتا ہے۔ پھرمیں نے مثال دی کہ مولانا یوسف صاحب مرحوم کے زمانہ میں تبلیغ کے ہر جلسہ میں انہیں کی لمبی لمبی تقریر ہوا کر تی تھی۔ مولانا یوسف صاحب کی تقریرکا نام تبلیغی اجتماع تھا۔ مگر کسی نے یہ نہیں کہا کہ یہ تو وَن مین شو ہے۔ اصل یہ ہے کہ جومشن تقریر کی سطح پر چلا جائے اس کو لوگ مشن سمجھتے ہیں، اور جو مشن رسالہ اور کتاب کے ذریعہ چلایا جائے اس کو وہ صحافت سمجھتے ہیں۔
اس قسم کا اعتراض کرنے والوں کی مشکل یہ ہے کہ وہ ابھی تک الرسالہ کو صرف ایک میگزین سمجھے ہوئے ہیں۔ انھوں نے ابھی تک اس کو ایک مشن نہیں سمجھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کو ایسے اشکالات پیش آرہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ کوئی مشن اپنے ابتدائی دور میں ون مین شو ہی ہوتا ہے۔ اگر آپ الرسالہ مشن کو کئی مین شو کے روپ میں دیکھنا چاہتے ہیں تو آپ کو اس مشن کے اگلے دور کا انتظار کرنا چاہیے۔
ایک صاحب نے کہا کہ آپ نے اب تک اپنا کوئی عملی پروگرام نہیں بتا یا۔ پھر آخر آپ کا مقصد کیا ہے۔ میں نے کہا کہ الرسالہ مشن کا مقصد، ایک لفظ میں ––––– اسلامی بیداری (Islamic awakening) ہے۔ یعنی موجودہ مسلمانوں میں دوبارہ اسلام کی اس اسپرٹ کو زندہ کرنا جو دور ِاول کے مسلمانوں میں تھی۔ یہی اسلامی اسپرٹ تمام باتوں کا خلاصہ ہے۔ اسلامی اسپرٹ بیدار ہو تو لوگوں میں ایمان کی حرارت پیدا ہو جائے۔ عبادتوں میں جان آجائے۔ اسلامی کردار ابھر آئے۔ لوگ معاملات و مسائل کو اسلامی نقطۂ نظر سے دیکھنے لگیں اور اسلامی ہدایات کے مطابق ان کے حل کی تدبیر کریں۔ اسلامی دعوت کا جذبہ ان کے اندرا بھر آئے۔
ہماری تشخیص کے مطابق، موجودہ مسلمانوں میں جو اصل چیز کھوئی گئی ہے وہ کوئی ظا ہری ڈھانچہ نہیں ہے بلکہ اصل چیز جو ان سے کھوئی گئی ہے وہ اندرونی اسپرٹ ہے۔ دوسری تمام چیزیں جو ان میں مفقود نظر آتی ہیں وہ اسی اصل کے نہ ہونے کا نتیجہ ہیں۔
تعمیر ِملت کے سلسلہ میں اس بنیادی کام کی اہمیت ہر ایک کو معلوم ہے۔ مگر کوئی اپنے آپ کو اس کام میں نہیں لگاتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دوسرے کاموں میں فوراً لیڈری ملتی ہے، جب کہ اس کام میں لیڈری اور مقبولیت کی کشش موجود نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ سب سے بڑی قربانی گمنامی کی قربانی ہے۔ یعنی شہرت والے کام کو چھوڑ کر اس کام کو اختیار کر نا جس میں آدمی کو عوامی شہرت نہیں ملتی۔
ایک صاحب نے کہا کہ آپ زیادہ تر رسالہ اور کتاب کے ذریعہ اپنا مشن چلارہے ہیں۔آپ نے ابھی تک اپنی کوئی مستقل تنظیم قائم نہیں کی۔ ایسی حالت میں آپ کا مشن آئندہ صرف کتب خانوں میں رہ جائے گا، ان کے باہر اس مشن کا کوئی وجود نہ ہوگا۔
میں نے کہا کہ شاہ ولی اللہ دہلوی (۱۷۶۲ – ۱۷۰۳) نے صرف کتا بیں لکھیں۔ اپنے افکار کی بنیاد پروہ کوئی عملی تنظیم قائم نہ کرسکے۔ پھر کیا شاہ ولی اللہ کا مشن ختم ہو گیا۔ انھوں نے کہا کہ نہیں۔ وہ شاہ صاحب کے بعد بھی پوری طاقت کے ساتھ زندہ رہا اور آج تک زندہ ہے۔ میں نے کہا کہ پھر آپ کیسے یہ فرض کر رہے ہیں کہ الرسالہ مشن آئندہ ختم ہو جائے گا، صرف اس لیے کہ ہم نے ابھی تک اس کے لیے معروف قسم کی کوئی عملی تنظیم قائم نہیں کی۔
ایک صاحب نے کہا کہ آپ یہ کہتے ہیں کہ اب میں بوڑھا ہوگیا۔ایسی حالت میں آپ نے اپنے بعد اس مشن کو زندہ رکھنے کا کیا انتظام کیا ہے۔
میں نے کہا کہ کسی مشن کی بقا کا انحصار اس کی اپنی فکری طاقت پر ہوتا ہےنہ کہ کسی خارجی سہارے پر۔ مولانا محمد علی جوہر اور مولانا ابوالکلام آزاد نے دھواں دھار خلافت تحریک اٹھائی۔ مگر وه ۱۹۲۴ میں ختم ہوگئی جب کہ محمد علی اور ابو الکلام ابھی زندہ تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ خلافت تحریک اگر چہ ہندستان میں چل رہی تھی مگر اس کا اصل سرا ترک لیڈروں کے ہاتھ میں تھا۔
اس مثال سے ظاہر ہوتا ہے کہ مشن اگر اندرونی طاقت سے محروم ہو تووہ بانی کی موجودگی میں ختم ہو سکتا ہے۔ اور اگر مشن خود جاندار ہے تو وہ بانی کے بعد بھی زندہ اور قائم رہے گا۔
میں نے کہا کہ غور کیجیے کہ الرسالہ مشن کیا ہے۔ یہ مشن مسلمانوں کے لیے اسلام کو ان کی تازہ دریافت (rediscovery) بنانا چاہتا ہے۔ اس کی اساس داخل پر ہے نہ کہ خارج پر۔ اگر ہم اس میں کامیاب ہو جائیں کہ کچھ صاحب صلاحیت افراد کے لیے اسلام کو ان کی از سر نو دریافت بنا دیں تو خود اسلام ان کے لیے ہر دوسری چیز کا بدل بن جائے گا۔ لوگ جس طرح کسی خارجی سہارے کے زور پر حرکت کرتے ہیں، یہ افراد خود اسلام کے ابدی سرچشمہ سے اپنے آپ کو جوڑ کر مزید شدت کے ساتھ متحرک ہو جائیں گے۔ اور اس طرح یہ مشن خود اپنی اندرونی طاقت کے زور پر زندہ رہے گا۔ ان شاء اللہ۔
ایک صاحب نےکہاکہ آپ باتیں تو بہت اچھی اچھی کرتے ہیں،مگر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے سامنے کوئی عملی نقشہ نہیں۔ اس سلسلہ میں میں نے بتایا کہ ستمبر ۱۹۸۹ میں میں ایک عرب ملک میں تھا۔ وہاں عرب نوجوانوں کا ایک اجتماع ہوا۔ اس موقع پر میں نے الرسالہ کے پیغام کا تعارف کرایا۔ آخر میں ایک نوجوان نے کہا کہ میں نے آپ کی عربی مطبوعات پڑھی ہیں اور آج آپ کا خطاب بھی سنا۔ مگر میں یہ نہ سمجھ سکا کہ آپ کا پروگرام کیا ہے۔ میں نے کہا کہ ہمارا پروگرام یہ ہے کہ ہم پروگر ام بنانے والے انسان بنائیں (برنامجنا هو إعداد المبرمجين)
یہ اللہ کا فضل ہے کہ اب الرسالہ مشن بالفعل اس مرحلہ میں پہنچ رہا ہے۔ اس کے حلقہ میں پروگرام ساز انسان بننا شروع ہو گئے ہیں۔ اس کی ایک مثال خود یہ سمپوزیم ہے۔ الرسالہ میں کبھی یہ تصور نہیں دیا گیا تھا کہ لوگ "الرسالہ سمپوزیم " منعقد کریں۔ مگر پٹنہ کے قارئین نے خود اپنی سوچ سے الرسالہ سمپوزیم کی اسکیم بنائی اور کامیابی کے ساتھ اس کو عملی مرحلہ تک پہنچایا۔
اسی طرح متعدد مقامات پر ہمارے ساتھیوں نے بطور خود الرسالہ اکیڈمی، الرسالہ لائبریری جیسی مختلف تحریکیں چلا رکھی ہیں۔ بعض مقامات پر انھوں نے اسکول اور مدرسہ قائم کیا ہے اور اس کو بنیاد بنا کر الرسالہ مشن کی توسیع و اشاعت میں مشغول ہیں۔ اسی طرح باہر کے ملکوں میں کئی مقامات پر اجتماعی انداز میں کام ہو رہا ہے۔ ایک عرب ملک میں خاص اسی مقصد کے لیے دارالرسالۃ الربانیۃ قائم کیا گیا ہے، وغیرہ۔
مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ وقت آ رہا ہے جب کہ ملت کے اندر عمومی سطح پر ایک نئی لہر ابھرے۔ لوگ بستی بستی اور شہر شہر میں الر سالہ کی فکر کو پھیلانے کے لیے مختلف تحریکیں اس کے نام سے چلائیں –––– مثلاً الرسالہ لائبریری، الرسالہ ریڈرس فورم، الرسالہ اکیڈمی، الرسالہ ریسرچ سنٹر،الرسالہ سمپوزیم، الرسالہ کانفرنس، الرسالہ اسٹڈی سرکل، الرسالہ انفارمیشن سروس، الر سالہ اسپتال، الرسالہ اسکول الرسالہ کالج وغیرہ، وغیرہ۔ لوگ جگہ جگہ اس طرح کے کام شروع کریں۔ حتی کہ ان شاء اللہ وہ وقت آئے گا جب کہ کچھ لوگ الرسالہ یونیورسٹی قائم کریں گے، اور ایک نئی تازہ دم ملت بنانے کے لیے اس کو مکمل ادارہ کے طور پر چلائیں گے۔
الرسالہ مشن قوم کی فکری تعمیر کی مہم ہے۔ اسی مقصد کے لیے ہمیں ہر ممکن طریقہ اختیار کرنا ہوگا، یہاں تک کہ قوم کے اندر مطلوبہ فکری انقلاب آجائے۔ الرسالہ مشن کی کامیابی یہ ہے کہ وہ ایک عمومی فکری انقلاب بن جائے۔ اگر وہ عام جماعتوں کی طرح محض ایک تشکیلی ڈھانچہ کے روپ میں زندہ رہا تو کم از کم میں اس کو الرسالہ مشن کی کامیابی نہیں سمجھوں گا۔
ایک صاحب نے فرمایا کہ آپ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ مسلم دشمن طاقتوں کی طرف سے آپ کو مدد ملتی ہے اور آپ ان کے تعاون سے اپنا مشن چلارہے ہیں۔ میں نے کہا کہ جو شخص بھی غور کرے وہ پائے گا کہ یہ ایک بے بنیاد الزام ہے۔ الرسالہ میں سراسر قرآن و حدیث کی دعوت دی جاتی ہے۔ پھر وہ کون مسلم دشمن اور اعداء اسلام ہیں جو ہم کو اس لیے مدد دے رہے ہیں کہ ہم قرآن وحدیث والے دین کو دنیا میں پھیلائیں۔
پھر میں نے کہا کہ الرسالہ مشن خدا کے فضل سے اتنا طاقت ور ہو چکا ہے کہ وہ خود اپنی بنیاد پر قائم ہے۔ اس کو کسی" دشمن دین "کی مدد لینے کی ضرورت نہیں۔ یہ اللہ کا فضل ہے کہ الرسالہ مشن کے حامی اور مؤید ساری دنیا میں بڑی تعداد میں پیدا ہو چکے ہیں۔ اس کا ایک نمونہ آپ نے خود پٹنہ میں آج (۲۸جولائی ۱۹۹۱) کو دیکھا ہے۔ یہاں سنہا انسٹی ٹیوٹ میں الرسالہ ریڈرس فورم نے شام کو ایک پروگرام رکھا تھا جس میں میری تقریر اسلام اور بقائے باہم کے بارے میں تھی۔ اتفاقاً ایسا ہو اکہ جس وقت انسٹی ٹیوٹ کے ایک ہال میں میری تقریر تھی، ٹھیک اسی وقت انسٹی ٹیوٹ کے دوسرے ہال میں بہار کے چیف منسٹر مسٹر لالو پرشاد کی تقریر تھی۔
دونوں ہال گراؤنڈ فلور پر ہیں اور پاس پاس ہیں۔ حسبِ معمول دوسرے ہال میں زبر دست دھوم تھی۔ پولیس اور سرکاری لوگ بڑی تعداد میں نظر آرہے تھے۔ اس کے باوجود ہمارے ہال کی تمام سیٹیں بھر گئیں۔ بہت سے لوگوں کو کھڑا ہونا پڑا۔ لمبی تقریر کے دوران مکمل خاموشی تھی۔ آخر وقت تک لوگ نہایت سکون کے ساتھ تقریر کو سنتے رہے۔ سامعین میں تقریباً نصف ہندو اور نصف مسلمان تھے۔ خود سنہا انسٹی ٹیوٹ کے کئی لوگ، مثلاً پروفیسر ڈی ڈی گرو (Dr. D. D. Guru) بھی شروع سے آخر تک اس میں شریک رہے۔
میں نے کہا کہ جس مشن میں یہ طاقت ہو کہ وہ لوگوں کو مجبور کرے کہ وہ چیف منسٹر کے اپنے صدرِ مقام پر چیف منسٹر کا پروگرام چھوڑ کر اس کا خطاب سننے کے لیے آئیں، اس کو چلانے کے لیے کسی "دشمن ِدین" کی مدد لینے کی ضرورت نہیں۔ وہ خود اپنے زور پر چل سکتا ہے اور قائم ہو سکتا ہے ان شاءاللہ العزیز۔