اسلامی مشوره
قرآن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوحکم دیا گیا کہ معاملات میں مسلمانوں سے مشورہ لو (وشاورهم في الأمر، آل عمران: ۱۵۹) دوسری جگہ عام مسلمانوں کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ اپنا کام آپس کے مشورہ سے کرتےہیں (وأمرهم شوری بینهم، الشوری: ۳۸)
حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ میں نے کسی کو نہیں دیکھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ لوگوں سے مشورہ کرتا ہو (ما رأيت رجلاً أكثر استشاراً للرجال من رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، التفسير المظہری،1/ 161) اسی طرح حضرت ابو ہریرہ صحابہ کے بارے میں بتاتے ہیں کہ میں نے کسی کو اصحاب رسول سے زیادہ مشورہ کرنے والا نہیں پایا (مَا رَأَيْت أحدا أَكثر مُشَاورَة من أَصْحَاب رَسُول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم َ، تفسیر الکشاف، 1/ 432)
حسن بصری کا قول ہے کہ جب بھی کوئی گروہ مشورہ سے کام کرتا ہے تو وہ ضرور صحیح ترین رائے تک پہنچ جاتا ہے (ما شاور قومٌ قط إلاّ هُدوا لأرشد أمورهم،صفوة التفاسير،1/ 219)
مشورہ کا مطلب یہ ہے کہ مختلف لوگوں کی معلومات اور ان کے تجربات کو حاصل کیا جائے اور پھر ان کی روشنی میں زیر بحث معاملہ کا فیصلہ کیا جائے۔ اگر مشورہ دینے والے سنجیدہ ہوں، اور مشورہ لینے والے حق پسند ہوں تو مشورہ اتنا مفید ثابت ہوتا ہے کہ اس سے زیادہ مفید کوئی چیز نہیں مشورہ امکانی نقصانات سے بچنے کا سب سے زیادہ یقینی ذریعہ ہے۔
مشورہ دینے والے کو چا ہیے کہ جوکچھ بولے سوچ کر بولے، اور اپنی رائے پر کبھی اصرار نہ کرے۔مشورہ لینے والے کو چاہیے کہ وہ کسی بات کو وقار کا مسئلہ نہ بنائے۔ اگر کوئی شخص اس کے خلاف بات کہے تب بھی اس کو خالی الذہن ہو کر سنے۔ حتی کہ کوئی شخص سخت انداز میں تنقید کرے، تب بھی اس کے الفاظ یا لہجہ کی سختی کو نظرانداز کرتے ہوئے اس کی اصل رائے پر غور کرے۔
اگر مشورہ دینے والے اور مشورہ لینے والے دونوں مشورہ کے ان آداب کو سمجھیں اور ان کو پوری طرح ملحوظ رکھیں توہر مشورہ لازمی طور پر مفید ثابت ہوگا اور صحیح فیصلہ تک پہنچانے والا بن جائے گا، فرد یا ادارہ کے معاملہ میں بھی اور پوری قوم کے معاملہ میں بھی۔
مشورہ ایک اسلامی طریقہ ہے۔مشورہ کامیابیوں کا زینہ ہے۔