ایک آیت
قرآن کی سورہ نمبر ۴۵ میں ارشاد ہوا ہے کہ یہ خدائے عزیز و حکیم کی طرف سے اتاری ہوئی کتاب ہے۔ زمین و آسمان میں پھیلی ہوئی نشانیاں اس کی تصدیق کر رہی ہیں۔ مگر جن لوگوں کے اندر گھمنڈ کا مزاج ہو اوہ اس سے نصیحت لینے سے قاصر رہتے ہیں۔ اس سلسلہ میں کہا گیا ہے :
وَإِذَا عَلِمَ مِنْ ءَايَاتِنَا شَيْـًٔا ٱتَّخَذَهَا هُزُوًا ۚ أُولَـٰٓئِكَ لَهُمْ عَذَابٌۭ مُّهِينٌۭ (الجاثیہ: ۹)
اور جب اس کو ہماری آیتوں میں سے کسی چیز کاعلم ہوتا ہے تو وہ اس کومذاق بنا لیتا ہے۔ ایسے لوگوں کے لیے سخت ذلت کا عذاب ہے۔
قرآن کی آیتوں میں" چیز "کو پانا اور اس کو لے کر قرآن کا مذاق اڑانا کیا ہے، اس کی ایک مثال یہ ہے کہ قرآن میں بتایا گیا کہ جہنم کے اوپر ۱۹ فرشتے ہوں گے (المدثر :۳۰) یہاں منکرین نے یہ کیا کہ ساری باتوں کو چھوڑ کر صرف" ۱۹ "کے عدد کو لے لیا اور اس کا مذاق اڑاتے ہوئے ایک پہلوان نے کہا کہ اگروہ صرف انیس ہیں تو میں اکیلا ہی ان کو گرادوں گا (اِن كانوا تسعة عشر فأنا ألقاهم وحدى) الجامع لاحكام القرآن للقرطبي، ۱۵۹/۱۶
بے حس اور متکبر لوگ عام طور پر سچائی کو نہ ماننے کے لیے یہی طریقہ اختیار کرتے ہیں۔ وہ آیات کو چھوڑ کرشیئ کو لے لیتے ہیں۔ وہ حقائق کو نظر انداز کر دیتے ہیں اور شوشہ کو لے کر صاحبِ حق کا مذاق اڑاتےہیں۔ ایسے لوگ خدا کی نظر میں بد ترین مجرم ہیں۔
حق کو ماننا ہمیشہ اپنی نفی کی قیمت پر ہوتا ہے۔ حق کو ماننے کے لیے آدمی کو اپنی رائے بدلنا پڑتا ہے۔اس کا تقاضا ہوتا ہے کہ آدمی اپنی خواہش کو کچلے۔ اس کے لیے ضرورت ہے کہ آدمی اپنے آپ کو بڑائی کے مقام سے اتارے اور اپنے آپ کو چھوٹا بنانے پر راضی ہو جائے۔ اس جہاد ِعظیم کے لیے آدمی تیار نہیں ہوتا۔ اسی کےساتھ وہ یہ بھی نہیں چاہتا کہ اس کو منکر ِحق کہا جائے۔ اس لیے وہ حق کے پیغام میں شوشہ نکال کر اس کا استہزاءکرتا ہے تاکہ یہ ظاہر ہو کہ جس چیز کو وہ نہیں مان رہا ہے وہ اسی قابل ہے کہ اس کو نہ مانا جائے۔
جو لوگ خدائی صداقت کو رد کریں وہ خود آخرت میں رد کر دیے جائیں گے۔ اور جن لوگوں کو خداردکر دے ان کے لیے بر بادی کے سوا کوئی اور انجام مقدر نہیں۔