لہوِ حدیث
وَمِنَ ٱلنَّاسِ مَن يَشْتَرِى لَهْوَ ٱلْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَن سَبِيلِ ٱللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍۢ وَيَتَّخِذَهَا هُزُوًا ۚ أُولَـٰٓئِكَ لَهُمْ عَذَابٌۭ مُّهِينٌۭ (لقمان:۶)
اور لوگوں میں کوئی ایسا ہے جو ان باتوں کا خریدار بنتا ہے جو غافل کرنے والی ہیں تاکہ اللہ کی راہ سے گمراہ کرے، بغیر کسی علم کے، اور اس کی ہنسی اڑ ائے۔ ایسے لوگوں کے لیے ذلیل کرنے والا عذاب ہے۔
جب حق کی دعوت اٹھتی ہے تو ایک طبقہ بڑھ کر اس کو قبول کر لیتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے اندر سنجیدگی ہوتی ہے۔ جو نفسیاتی پیچیدگیوں میں مبتلا نہیں ہوتے۔جو دنیا کی مصلحتوں میں اٹکے ہوئے نہیں ہوتے۔ حق کا پیغام ان کے لیے ان کے دل کی آواز ثابت ہوتا ہے۔ وہ فوراً اس کو اپنا لیتے ہیں۔ اور اللہ کی توفیق سےاللہ کے مقبول بندوں میں شامل ہو جاتے ہیں۔
دوسرا طبقہ وہ ہے جو کبر کے مرض میں مبتلا ہوتا ہے۔ اس کا احساسِ برتری اس میں رکاوٹ بن جاتا ہے کہ وہ حق کے پیغام کو قبول کرے۔ وہ بے پر واہی کے ساتھ اس کو نظر انداز کر دیتا ہے۔ اس کو یہ بات اپنے مقام سے فروتر نظر آتی ہے کہ وہ ایک ایسے پیغام کو قبول کرے جس کے ساتھ عظمتوں کی روایات شامل نہیں،جس میں اس کو بیٹھنے کے لیے اونچی گدیاں دکھائی نہیں دیتیں۔
یہ لوگ صرف اس پر بس نہیں کرتے کہ حق کے پیغام کو اختیار نہ کریں۔ اسی کے ساتھ وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ وہ اپنی روش کو جائز اور معقول ثابت کریں۔ اس مقصد کے لیے، مذکورہ آیت کے مطابق وہ لہو ِحدیث کا طریقہ اپناتے ہیں۔ وہ کوشش کرتے ہیں کہ گمراہ کن باتیں پھیلا کر لوگوں کو حق سے متوحش کر دیں۔
لہو ِحدیث سے مراد وہ گمراہ کرنے والی باتیں ہیں جن کو وہ حق سے ہٹانے کے لیے لوگوں کے درمیان پھیلاتے ہیں–––––– دائی حق کی اصل بات کا جواب دینے کے بجائے اس کی ذات پر طعنہ زنی کرنا۔ دلائل کے مقابلہ میں عیب جوئی کا طریقہ اختیار کرنا۔ داعی کے پیغام میں شوشے نکال کر اس کو غیر معتبر ثابت کرنے کی کوشش کرنا۔ داعی کی بات کو غلط شکل میں پیش کر کے اس کو نشانہ ٔملامت بنانا۔ حقائق اور بینات کےجواب میں طنز و تضحیک کی مہم چلانا، وغیرہ یہ تدبیریں اسی طرح بے فائدہ ہیں جس طرح پانی کے سیلاب کو روکنے کے لیے ریت کی دیوار۔