جنگ بے فائدہ
نپولین ۲۳ سال تک یورپی ملکوں سے جنگ لڑتا رہا۔ آخر کار انگلینڈ کے ڈیوک (Duke of Wellington) نے ۱۸ جون ۱۸۱۵ کو واٹر لو جنگ (Battle of Waterloo) میں نپولین بوناپارٹ کو شکست دی (570/X)ڈیوک کی یہ فتح اتنی عظیم تھی کہ اس کو "گریٹ ڈیوک" کہا جانے لگا۔ اس کی بابت لکھا گیا کہ واٹر لو کے مقام پر نپویلین کو شکست دینے کے بعد وہ دنیا کےفاتح کو فتح کرنے والا بن گیا:
By defeating Napoleon at Waterloo he became the conqueror of the world's conqueror. (19/755)
ہر طرف ڈیوک کی تعریف کی جانے لگی۔ مگر خود ڈیوک جھوٹے فخر (false pride) کا شکار نہیں ہوا۔ اس کو اس بات کا شدید احساس تھا کہ اس فتح تک پہنچنے کے لیے اس کے اپنے ملک سمیت چار ملک تباہ ہوگئے ہیں۔ اس نے کہا کہ کوئی بھی چیز، ایک ہاری ہوئی جنگ کے سوا، ایک جیتی ہوئی جنگ کی غم ناکی کی آدھی غم ناک بھی نہیں ہو سکتی :
Nothing except a battle lost can be half so melancholy as a battle won.
یہی ہر جنگ کا معاملہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جنگ میں ہار جیت کے درمیان اتنا ہی فرق ہے کہ ہار کے ساتھ شرمندگی شامل ہوتی ہے، اور جیت کے ساتھ شرمندگی شامل نہیں ہوتی۔ ورنہ بربادی کے اعتبار سے جیت اور ہار دونوں تقریباً یکساں ہیں۔
دوسری عالمی جنگ میں برطانیہ فاتح بن کر نکلا۔ مگر اس کے نتیجہ میں وہ اتنا کمزور ہو گیا کہ اس کے اندر یہ طاقت نہیں رہی کہ وہ اپنے زیرِ قبضہ ملکوں پر اپنا کنٹرول قائم رکھ سکے۔ خلیج کی جنگ میں امریکہ نے بظاہر شاندا ر فتح حاصل کی۔ مگر مسلسل ایسی رپورٹیں اخباروں میں آرہی ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ امریکہ کے لوگ نتیجۂ جنگ کے معاملہ میں مایوسی کا شکار ہو رہے ہیں۔
ہندستان ٹائمس (۸ جون ۱۹۹۱ء) میں اس کے نمائندہ مقیمِ واشنگٹن، مسٹر این سی منن کی رپورٹ چھپی ہے۔ اس میں وہ بتاتے ہیں کہ امریکہ کے لوگ جنگ کے نتائج پر مطمئن نہیں۔ وہ لوگ کہہ رہے ہیں کہ امریکہ نے آخر خلیج کی جنگ سے کیا حاصل کیا :
Just what did the United States gain from the war?
جب کسی سے اختلاف اور ٹکراؤ کی حالت پیش آتی ہے تو اس کا پر امن حل بھی وہیں موجود ہوتا ہے۔ مگر آدمی اکثر اوقات پر امن حل کو چھوڑ کر جنگ کے حل کی طرف دوڑتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ محسوس کرتا ہے کہ پر امن حل میں وہ اپنی کچھ چیزوں کو کھو رہا ہے۔ مگرحقیقت یہ ہے کہ پر امن حل میں بظا ہر جو نقصان ہے، اس سے بہت زیادہ نقصان وہ ہے جو جنگ کی صورت میں آدمی کو بر داشت کرنا پڑتا ہے۔
مثال کے طور خلیج کے بحران میں اگر کویت اس پر راضی ہو جاتا کہ وہ اپنا غیر آباد جزیرہ ور بہ (Warba Island) عراق کو پٹہ پر دیدے، جیسا کہ عراق کا مطالبہ تھا، تو یہ اس نقصان سے بہت کم تھا جو جنگ کی صورت میں کویت کو اٹھانا پڑا۔ اسی طرح خود عراق اگر کو یتی جزیرہ کے بارے میں اپنے مطالبہ سے باز آجاتا اور اپنی موجودہ جغرافی حالت پر قانع رہتا تو یہ اس کے لیے اس نقصان سے ہزاروں گناکم ہوتا جو جنگ کے بعد اس کے نتیجہ میں عراق کے حصہ میں آیا۔
انسان جب بھی کسی جنگ میں الجھتا ہے تو وہ جذباتی ہیجان کی حالت میں اس سے الجھتا ہے۔ اگر انسان ایسا کرے کہ ٹکراؤ پیش آنے کی صورت میں وہ رک کر ٹھنڈے دل سے غور کرے تو یقینی طور پر وہ جنگ کے مقابلہ میں امن کو ترجیح دے گا۔
جنگ کی طاقت ہتھیار ہے۔ مگر جس طرح فوج اور ہتھیار ایک طاقت ہے، اسی طرح امن کی تدبیر بھی ایک طاقت ہے۔ جس طرح ہتھیار دشمن کو زیر کرتا ہے۔ اسی طرح امن کی طاقت بھی دشمن کو زیر کرتی ہے۔ البتہ دونوں میں یہ فرق ہے کہ ہتھیار کو استعمال کرنا ہمیشہ تخریب کی قیمت پر ہوتا ہے. اور امن کی طاقت ایک تعمیری طاقت ہے۔ وہ اپنے آخری استعمال کے بعد بھی تعمیر ہی رہتی ہے۔ جنگ کی تدبیر اختیار کرنے سے نئے شدید تر مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔ جب کہ پر امن تدبیر مسئلہ کو اس طرح حل کرتی ہے کہ وہ کوئی نیا مسئلہ پیدا ہونے نہیں دیتی۔