الحدیبیہ

اسلام کی تاریخ کا ایک واقعہ وہ ہے جس کو  الاستراتیجیۃ الحدیبیۃ (Al-Hudaibiya strategy) کہا جا سکتا ہے۔ جب الحدیبیہ کا معاہدہ ہوا تو قرآن میں اس کو فتحِ مبین (الفتح:  ۱) کہا گیا۔ الحدیبیہ اسٹریٹجی اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہ تھی کہ مقابلہ کو جنگ کے میدان سے ہٹا کر امن کے میدان میں لایا جائے۔ تشدد کی طاقت سے فیصلہ لینے کے بجائے امن کی طاقت سے فیصلہ حاصل کرنے کی کوشش کی جائے۔ یہ تدبیر انتہائی کامیاب رہی۔ الحدیبیہ کے بعد دو سال کے اندر مکہ کسی جنگ کے بغیر فتح ہو گیا۔

یہ ۶۲۸ء کا واقعہ ہے۔ اسلام نے الحدیبیہ کی صورت میں پہلی بار انسانی تاریخ میں اس اصول کاکامیاب مظاہرہ کیا کہ تشدد کی تدبیر کے مقابلہ میں امن کی تد بیر زیادہ کارگر اور زیادہ موثر ہوتی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا میں سب سے بڑی طاقت امن کی طاقت ہے۔ جنگ کی طاقت بظا ہر کتنا ہی زیادہ اہم دکھائی دیتی ہو، اس کی ایک حد ہے، اپنی حد پر پہنچ کر وہ غیر موثر ہو جاتی ہے۔

 مگر موجودہ زمانہ کے مسلمانوں نے اس حقیقت کو نہ اسلام کی تاریخ سے لیا اور نہ موجودہ حالات سے وہ اس کو اخذ کر سکے۔مسلمانوں کے نادان رہنما سو سال سے بھی زیادہ عرصہ سے "تلوار" کی عظمت بیان کرنے میں مصروف ہیں۔ اس الٹی رہنمائی نے ساری دنیا میں مسلمانوں کی سوچ کو بگاڑ دیا ہے۔ وہ ہر جگہ تلوار کی طاقت سے فیصلہ لینا چاہتے ہیں، خواہ اس کا نتیجہ یک طرفہ طور پر خود ان کی اپنی بر بادی کی صورت میں کیوں نہ نکلتا ہو۔

اس غلط ر ہنمائی کا نتیجہ یہ ہے کہ مسلمان آج کی دنیا میں ایک تضاد بن کر رہ گئے ہیں۔ اپنی عدمِ تیاری کی بنا پر وہ پر امن مقابلہ میں دوسری قوموں کا سامنا کرنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ چنانچہ وہ جھنجھلاہٹ کا شکار ہو کر بے فائدہ قسم کی منفی سرگرمیوں میں مشغول ہیں۔ ان کا یہ مزاج کہیں لاحاصل مطالبہ اور احتجاج کی صورت میں ظاہر ہو رہا ہے اور کہیں لا حاصل بم اور گولی کی صورت میں۔

 مسلمان اگر آج کی دنیا میں اپنے لیے  باعزت جگہ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو انہیں دوبارہ الحدیبیہ اسپرٹ کو ز ندہ کرنا ہو گا۔ انھیں اپنے آپ کو پر امن طاقتوں سے مسلح کرنا ہو گا۔ موجودہ عسکری سرگرمیاں انھیں بربادی کے سوا کہیں اور پہنچانے والی نہیں۔ اس معاملہ میں ایک محدث کا مشہور قول پوری طرح صادق آتا ہے کہ اس امت کے بعد کے دور کے حالات بھی اسی سے درست ہوں گے جس سے اس کے دورِ اول کے حالات درست ہوئے تھے (لن یصلح آخر هذه الأمة إلابما صلح به أولها)

قرآن میں معاہدہ ٔحدیبیہ کو فتح مبین (الفتح : ۱) کہا گیا ہے۔ قال البخاري عَنِ ‌الْبَرَاءِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ: «‌تَعُدُّونَ أَنْتُمُ الْفَتْحَ فَتْحَ مَكَّةَ، وَقَدْ كَانَ فَتْحُ مَكَّةَ فَتْحًا، وَنَحْنُ نَعُدُّ الْفَتْحَ بَيْعَةَ الرِّضْوَانِ يَوْمَ الْحُدَيْبِيَةِ (صحیح بخاری،حدیث نمبر۴۱۵۰)

معاہدۂ حدیبیہ کیا ہے۔ معاہدۂ حدیبیہ اپنی روح کے اعتبار سے یہ ہے کہ دونوں فریقوں کو ایک دوسرے کے خلاف جارحانہ مداخلت کی حد تک پابند کر کے بقیہ ہر اعتبار سے انھیں آزاد کر دیا جائے۔ اس قسم کی آزادی جب قائم کی جائے گی تو ظاہر ہے کہ وہ صرف ایک فریق کے لیے  نہیں ہوسکتی وہ لاز ما ً دونوں فریقوں کے لیے  ہوگی۔ چنانچہ یہی معاملہ حدیبیہ کے وقت پیش آیا۔ اس میں اہل شرک پر جنگی اقدام کی ممانعت قائم کی گئی تو اہلِ اسلام بھی جنگی اقدام سے روک دیے گئے۔ اس طرح اہل اسلام کو اگر تبلیغ ِتوحید کی آزاد ی ملی تو دوسرے فریق کو بھی یہ آزادی ملی کہ وہ شرک کی حمایت میں جو کچھ کہنا چا ہیں کہیں۔ یہاں تک کہ انھیں یہ بھی آزادی ملی کہ لفظ رسول اللہ کو کاغذ پر مٹائیں۔ وہ کسی موحد اور مومن کو اپنے یہاں روک لیں، جیسا کہ انھوں نے ابو جندل کو روکا۔ وغیرہ اگر ہم ایک ایسی صورت حال قائم کرنا چاہتے ہیں جو ہماری موافقت میں ہو، تو اس صورت حال کے قیام کے بعد دوسروں کو اس سے فائدہ اٹھانے سے روکا نہیں جاسکتا۔ موجودہ عالم اسباب میں ایسا ہو نا ممکن نہیں۔ ہم اپنی اس خواہش کا اظہار بے جا احتجاج کی صورت میں کرسکتے ہیں۔ مگر ایسے احتجاج کی کوئی قیمت نہ ہوگی۔

 مثال کے طور پر آزادیٔ فکر کی صورت حال ہمارے لیے  مفید ہے۔ کیوں کہ اسلام کی عمومی اشاعت اسی وقت ہو سکتی ہے جب کہ دنیا میں فکری آزادی کا ماحول موجود ہو۔ مگر ہم ایسا نہیں کر سکتے کہ آزادی صرف ہمارے لیے  ہو، وہ دوسروں کے لیے  نہ ہو۔ حتی کہ یہ بھی ممکن نہیں ہے کہ دوسرے لوگ اپنی آزادی کے حق کو ہماری مقرر کی ہوئی شرائط کے تحت استعمال کریں۔

 یہ ایک سادہ سی بات ہے۔ مگر عجیب بات ہے کہ موجودہ زمانہ کے مسلم دانشور اور مسلم رہنما اس سادہ سی بات کو نہیں جانتے۔ جدید دنیا میں آزادیٔ فکر اور آزادی ٔاظہار ِخیال کے جو مواقع پیدا ہوئے ہیں ان کو ہم اپنے لیے  استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ مگر جب دوسرے لوگ اس آزادی کواپنے نظریہ کے حق میں استعمال کرتے ہیں تو ہمارے دانشور اور رہنما احتجاج شروع کر دیتے ہیں۔ اس قسم کا احتجاج صرف سطحیت ہے نہ کہ کوئی واقعی کام۔

 ہمارا اعتماد اپنے نظریہ کی برتر قوت پر ہونا چاہیے  نہ کہ دوسروں کی زبان بندی کرنے پر۔ دوسروں کی زبان بندی عملاً ممکن نہیں۔ البتہ ہم اپنے نظریہ کو ان کے دلوں میں داخل کر کے ان پر قابو پانے کی کوشش ضرور کر سکتے ہیں۔

 موجودہ زمانہ آزادیٔ فکر اور آزادیٔ اظہار خیال کا ز مانہ ہے۔ اس صورت حال نے اسلامی دعوت کے لیے نہایت اعلیٰ موافق میدان پیدا کر دیا ہے۔ اس جدید امکان کو استعمال کر کے اسلام کی اشاعت کا کام بہت بڑے پیمانہ پر کیا جا سکتا ہے۔ مگر عملاً ابھی تک ایسا نہ ہوسکا۔

 اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ جب آزادیٔ اظہار کا زمانہ آیا تو قدرتی طور پر وہ ہر ایک کے لیے آیا۔ چنانچہ ہر ایک نے اپنے اپنے خیال کو ظاہر کر نا شروع کر دیا۔ ان میں سے کچھ لوگوں کی باتیں مسلمانوں کے ذوق کے خلاف تھیں۔ مسلمان بس انھیں کے خلاف چیخ وپکارکر نے میں مشغول ہو گئے۔

 اس قسم کی چیخ و پکار سراسر بے فائدہ ہے۔ صحیح طریقہ یہ ہے کہ مخالفانہ باتوں کو نظرانداز کرتے ہوئے اسلام کی تعلیمات کو پھیلا جائے۔ جدید امکانات کو اسلام کی دعوت کو عمومی بنانے کے لیے استعمال کیا جائے۔

اسلام کے مثبت پیغام کی اشاعت اسلام کے مخالفین کا زیادہ بہتر جواب ہے۔ اسلام کے سورج سے پردہ کا ہٹنا باطل کے اندھیرے کو اپنے آپ ختم کر دینے والا ہے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom