انوکھی صفت
قرآن میں نہایت تفصیل کے ساتھ جنت کا ذکر کیا گیا ہے۔ ان سب کا خلاصہ اس مختصر آیت میں ہے کہ جنت میں وہ تمام چیزیں ہوں گی جن کو آدمی کا جی چاہے گا اور جن سے اس کی آنکھوں کو لذت حاصل ہوگی۔وَفِيهَا مَا تَشۡتَهِيهِ ٱلۡأَنفُسُ وَتَلَذُّ ٱلۡأَعۡيُنُۖ (الزخرف: ۷۱)
انسان ساری معلوم کائنات میں ایک انوکھی مخلوق ہے جو لذت پسند ہے، جو لذت کا ادراک کر سکتا ہے۔ اس عجیب انسان کے لیے اللہ تعالی نے یہ عجیب تر امکان کھولا کہ اس کے لیے اعلیٰ ترین لذتوں سے بھری ہوئی ایک جنت بنادی جہاں وہ ابدی طور پر رہ سکے۔
لذت (pleasure) کی تخلیق بلا شبہ خالق کا ایک حیرت ناک تخلیقی کرشمہ ہے۔ ایک انجینئر خدا کی دی ہوئی عقل اور خدا کی دی ہوئی چیزوں کو کام میں لاکر مشینی انسان (robot) بناتا ہے۔ وہ سارے انسانی کام کرتا ہے۔ مگر کسی مشینی انسان کے اندر احساسِ لذت نہیں۔ کوئی مشین کسی بھی چیز سے محظوظ ہونا نہیں جانتی۔ یہ صرف انسان ہے جو لذت کا ادراک کرتا ہے۔ جو اپنی پسندیدہ چیزوں سے محظوظ ہو سکتا ہے۔
لذت سے مراد کوئی محدود چیز نہیں۔ یہ ایک نہایت وسیع بلکہ لامحدود معنویت رکھنے والا لفظ ہے۔ انسان صرف کھانے پینے جیسی لذتوں ہی سے محظوظ نہیں ہوتا بلکہ ہر معیاری چیز میں اس کے لیے لذت ہے۔ مثلاً ایک کمپیوٹر سو ہزار سوال کا نہایت صحیح جواب دے گا۔ لیکن وہ اپنے اس فعل پر خوش ہونا نہیں جانتا۔ مگر انسان جب ایک نفیس کام کرتا ہے۔ جب وہ ایک مسئلہ کا نہایت عمدہ جواب دیتا ہے تو اس کی روح کو بے پناہ خوشی حاصل ہوتی ہے۔ یہی دوسرے تمام افعال کا معاملہ ہے۔
جنت میں ہر چیز اپنے آخری معیار ِکمال پر ہوگی۔ جنت میں جو آدمی داخل کیا جائے گا وہ بھی کامل شخصیت میں ڈھال کر داخل کیا جائے گا۔ اس لیے جنت کا ہر فعل انتہائی حد تک پر لذت بن جائے گا۔ وہاں بولنا، چھونا، دیکھنا، سننا، اٹھنا،بیٹھنا اور چلنا پھرنا ہر فعل اپنے اندر لذتوں کالا محدود سامان لیے ہوئے ہو گا۔