محنت کا کرشمہ
اختر حسین غازی خان ۱۹۲۶ میں غازی پور میں پیدا ہوئے۔ ۱۹۵۷ سے وہ دہلی میں ہیں۔ وہ دہلی آئے تو اپنی معمولی تعلیم کی بنا پر وہ یہاں کوئی اچھا کام نہ پاسکے۔ سالہا سال تک ان کا یہ حال تھا کہ معمولی کاموں کے ذریعہ وہ کچھ پیسے حاصل کرتے اور اس سے بالکل سادہ قسم کی زندگی گزارتے۔ اکثران کا اور ان کے بیوی بچوں کا کھانا چٹنی اور چاول یا چٹنی اور دال ہوتا تھا۔ مگر آج وہ نئی دہلی کے ایک فلیٹ میں رہتے ہیں۔ ان کا ٹیلی فون نمبر یہ ہے : 387899
۱۹۷۰ میں وہ ایک مسجد کے حجرہ میں اپنی بیوی کے ساتھ رہتے تھے۔ ان کے چھ لڑکے ہو چکے تھے مگر حال یہ تھا کہ ان بچوں کے لیے نہ رہنے کا کوئی ٹھکانہ تھا اور نہ کھانے پینے کا۔ ایک بار مہینوں تک چٹنی اور چاول اور وہ بھی آدھا پیٹ کھانا پڑا۔ ان کی بیوی گھبرا اٹھیں۔ انھوں نے کہا کہ اس سے بہتر تو یہ ہےکہ تم کہیں سے زہر لے آؤ۔ ہم سب لوگ زہر کھا کر اپنا قصہ ختم کرلیں۔
بیوی کی اس بات نے اختر حسین صاحب کو تڑپا دیا۔ انھوں نے سوچا کہ میرا یہ حال اس لیے ہے کہ میں نے علم حاصل نہیں کیا۔ اور اگر میرے بچے بھی علم سے محروم رہے تو ان کا بھی وہی حال ہو گا جو میرا ہے۔ ان کو وہ شعر یاد آیا جو انھوں نے اسماعیل میرٹھی کی کتاب میں پڑھا تھا :
جہاں تک دیکھیے تعلیم کی فرماں روائی ہے جو سچ پوچھو تو نیچے علم ہے اوپر خدائی ہے
انھوں نے طے کیا کہ میں بچوں کو زہر نہیں دوں گا بلکہ انھیں تعلیم دلاؤں گا۔ اب ان کے اندر ایک نیا جذبۂ عمل جاگ اٹھا۔ حالات کے دباؤ نے انہیں ہیرو بنا دیا۔ وہ روزانہ ۱۶ - ۱۶ گھنٹے تک کام کرنے لگے۔ وہ رات دن پیسہ کمانے کے لیے دوڑتے رہتے تاکہ اپنے بچوں کو پڑھا سکیں۔ ۲۶ جون ۱۹۹۱ کی ملاقات میں انھوں نے بتایا کہ برسوں تک میرا یہ حال رہا کہ میں دہلی کی سڑکوں پر دیوانوں کی طرح دوڑ تا رہتا تھا تا کہ محنت کر کے اتنا پیسہ حاصل کروں جو میرے بچوں کی تعلیم کے لیے کافی ہو۔
جن حالات نے اختر حسین صاحب کو ہیرو بنا دیا تھا ان حالات نے ان کے بچوں کو بھی سراپا محنت بنا دیا۔ ان کا ہر بچہ انتہائی لگن کے ساتھ پڑھنے لگا۔ ہر بچہ اپنے کلاس میں فرسٹ آنے لگا۔ یہ جدو جہد تقریباً بیس سال تک جاری رہی۔ آج ان کا ہر بچہ اعلیٰ ترقی کے منازل طے کر رہا ہے۔