الرسالہ سمپوزیم

پٹنہ کا بنیادی پروگرام الرسالہ سمپوزیم تھا۔ ۲۸ جولائی ۱۹۹۱ کو اس کا انعقاد گورنمنٹ اردو لائبریری کے ہال میں ہوا۔ اس لائبریری میں اجتماعات ہوتے رہتے ہیں۔ مگر لائبریری کے منتظمین کا کہنا تھا کہ اتنا کامیاب اجتماع آج تک یہاں کوئی اور دیکھنے میں نہیں آیا۔ اس سمپوزیم کی صدارت پٹنہ ہائی کورٹ کے جسٹس این پی سنگھ کرنے والے تھے۔ مگر عین وقت پر سرکاری ضرورت پیش آنے کی وجہ سے وہ رانچی چلے گئے۔ ان کی جگہ شہر کی مشہور شخصیت ڈاکٹر شری نواس نے سمپوزیم کی صدارت کی۔ مسٹر ایم ٹی خان نے کنونیر کی حیثیت سے کارروائی کو چلایا۔

 یہ سمپوزیم پٹنہ کے الرسالہ ریڈرس فورم کی طرف سے کیا گیا تھا۔ اس کی روداد کسی قدر تفصیل کے ساتھ درج کی جاتی ہے۔ راقم الحروف کے نزدیک یہ سمپوزیم الرسالہ مشن کی تاریخ کا ایک حصہ ہے، اس لیے  اس کا ریکارڈ میں آجانا ضروری ہے۔ دوسرے یہ کہ الرسالہ میں اس کی اشاعت سے دوسرے مقامات کے حلقۂ الرسالہ کو ان شاء اللہ تحریک ملے گی اور وہ اپنے حالات کے لحاظ سے اپنے یہاں بھی اسی نوعیت کی سرگرمیاں جاری کر سکیں گے۔

ماہنامہ الرسالہ ۱۹۷۶ سے برابر نکل رہا ہے۔ اسی کے ساتھ کتابوں کی اشاعت کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ جگہ جگہ اجتماعات بھی کیے جاتے رہے ہیں۔ اس طرح پندرہ سال کی مسلسل محنت کے نتیجہ میں الرسالہ کا مشن پورے ملک میں بحث و گفتگو کا موضوع بن گیا ہے۔ ملک کا بیشتر تعلیم یافتہ طبقہ اس سے واقف ہو چکا ہے۔ الرسالہ کی فکری ضرب لوگوں کے لیے  اتنی شدید ہے کہ لوگ مجبور ہو جاتے ہیں کہ اس کو پڑھنے کے بعد اس کے بارے  میں کچھ نہ کچھ ردعمل ظاہر کریں، خواہ مخالفت کی صورت میں یا موافقت کی صورت میں۔

حقیقت یہ ہے کہ یہ الرسالہ مشن کی بہت بڑی کامیابی ہے کہ آج الرسالہ ملک میں "سمپوزیم" کا عنوان بن رہا ہے۔ یہ واقعہ الرسالہ مشن کے دوسرے مرحلہ میں داخل ہونے کی علامت ہے، یعنی وہ مرحلہ جب کہ الرسالہ مشن انفرادی دلچسپی کے موضوع سے اوپر اٹھ کر اجتماعی دلچسپی کے دور میں پہنچ گیا۔ وہ عمومی سطح پر غوروفکر کا عنوان بن گیا۔

سمپوزیم (symposium) اصلاً ایک مرکب یونانی لفظ ہے۔ قدیم یونان میں تعلیم یافتہ لوگ فکری مباحثہ(intellectual discussion) کے لیے  جمع ہوتے تھے۔ ان کے مذاق کے مطابق، ایسی مجلسوں میں تفریحی پروگرام بھی رکھے جاتے تھے۔ اس کو وہ لوگ سمپوزن (sumposion)کہتے تھے۔ یہی لفظ انگریزی میں آکر سمپوزیم بن گیا۔ موجودہ استعمال میں سمپوزیم کا لفظ ایسی کا نفرنس کے لیے  بولا جاتا ہے جو کسی مخصوص موضوع پر بحث و مذاکرہ کے لیے  منعقد کی گئی ہو:

A conference organized for the discussion of some particular subject.

پٹنہ کے الرسالہ سمپوزیم کا عنوانِ بحث تھا : الرسالہ ایک روشنی، زندگی کی تعمیر میں الرسالہ کا رول۔ الرسالہ ریڈرس فورم جس کی طرف سے یہ سمپوزیم منعقد کیا گیا، اس فورم کے سرپرست (پیڑن) جسٹس این پی سنگھ ہیں اور مسٹرایم ٹی خان،ایم اے اس کے کنوینر ہیں۔

 سمپوزیم کا مقرر وقت صبح دس بجے تھا۔ مگر عملاًوہ ساڑھے دس بجے شروع ہو سکا۔ کینوینر مسٹر ایم ٹی خان مائیک پر کھڑے ہوئے تو سب سے پہلے انھوں نے کہا کہ آدھ گھنٹے کی یہ تاخیر الرسالہ مشن کے اصول کے خلاف ہے۔ اس کا ہم اعتراف کرتے ہیں۔ اور آپ سے اس کو تا ہی کی معافی چاہتے ہیں۔ اس کے بعد کنوینرنے کہا کہ کچھ دیر بعد یہاں لوگوں کے مقالات پڑھے جائیں گے اور لوگوں کے تاثرات آپ کے سامنے آئیں گے۔ اس سلسلہ میں چند ضروری باتیں میں آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔ انھوں نے کہا کہ الرسالہ مشن کو سمجھنے کے لیے  چار خاص شرطیں (conditions) ہیں۔ آپ براہ کرم اپنے اظہار خیال میں ان کو ملحوظ رکھیں۔

۱۔ الرسالہ کے پیغام کو اس کے صحیح تناظر (perspective) میں لینے کے لیے  غیرمتاثر ذہن ہونا ضروری ہے۔ اگر ہم پیشگی تاثرات کے ساتھ الرسالہ مشن کو دیکھیں توالرسالہ کے صفحات میں ہم اپنے آپ کو پڑھیں گے، ہم الرسالہ کو نہیں پڑھ سکیں گے۔

۲۔الرسالہ مشن کو سمجھنے کے لیے  وہ انسان درکار ہے جو ڈبل اسٹینڈرڈ پالیسی پر راضی نہ ہو۔ یعنی ذاتی زندگی میں ایک طریقہ پر عمل کرنا اور اجتماعی امور میں دوسرے طریقہ کی وکالت کرنا۔ انھوں نے کہا کہ دہرا پن (duality) کے ساتھ آپ واقعیت (actuality) کو نہیں سمجھ سکتے۔

۳۔تیسری چیز یہ کہ الرسالہ مشن کو سمجھنے کے لیے  تقلیدی ذہن کے بجائے غیر تقلیدی ذہن ہونا ضروری ہے۔ تقلید پر مبنی (Tradition-based) سوچ رکھنے والا آدمی تعقل پر مبنی (Reason-based) پیغام کو سمجھنے سے عاجز رہتا ہے۔

 ۴۔اسی کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ آپ الرسالہ کے پیغام کو اس کے جامع انداز(integrated way) میں لیں، آپ اس کو متفرق انداز (segregated way) میں نہ لیں۔کسی بھی پیغام کو اس کے کامل ڈھانچہ ہی میں رکھ کر سمجھا جاسکتا ہے نہ کہ منقسم ڈھانچہ میں۔

اس کے بعد کنوینر نے کہا کہ ہر اصول کے کچھ تقاضے ہوتے ہیں۔ جس طرح اصول مطلوب ہو تا ہے اسی طرح اس کے تقاضے بھی لازمی طور پر مطلوب ہوتے ہیں۔ تقاضوں کو چھوڑنے کے بعد اصول بے معنی ہو جاتا ہے۔ مثال کے طور پر اپنے حق (right) کو پانے کے لیے  تحمل (restraint) کا اہتمام ضروری ہے۔ آدمی کو حق ہے کہ وہ اپنی چیز کو حاصل کرے مگر حاصل کرنے کی جد و جہد کے دوران تحمل کے اصول کو پکڑے رہنا ضروری ہوگا۔ ورنہ حق دارہونے کے باوجود آدمی اپنے حق کو پانےسے محروم رہے گا۔

اس تمہیدی تقریر کے بعد لوگوں کے پیغامات پڑھ کر سنائے گئے۔ سب سے پہلے جسٹس این پی سنگھ کا پیغام پڑھا گیا۔ وہ سمپوزیم میں بحیثیت صدر شریک ہونے والے تھے مگر اچانک سر کاری ضرورت پیش آنے کی وجہ سے ان کو رانچی جانا پڑا۔ چنانچہ ڈاکٹر شری نو اس نے سمپوزیم کی صدارت کی۔ جسٹس سنگھ نے اپنا تحریری پیغام بھیج دیا تھا۔ ان کے پیغام کا ایک حصہ یہ تھا:

 A serious reader of Al-Risala can take a great benefit from Maulana's manifestations by becoming quick in precision, broad in vision and fresh in approach.

اس کے علاوہ اور بھی کئی صاحبان کے پیغامات پڑھے گئے۔ انھوں نے اپنے پیغام میں یہ کہا تھا کہ وہ الرسالہ کے قاری ہیں۔ اور اس کے پیغام سے اتفاق رکھتے ہیں۔ یہی قوم اور ملک کی ترقی کا راستہ ہے۔ ان حضرات کے نام یہ ہیں :

ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی، مارواڑی کا لج، بھاگل پور

محمد مصباح الزماں، پرنسپل ایم اے اے ہائی اسکول، پٹنہ

بدرالدین احمد، اکاؤنٹ افسر، کنا را بینک،پٹنہ

محمد شفیق، شیخ پوره، مونگیر

ڈاکٹر عبد الصمد، پٹنہ

پیغام سنانے کے بعد مقالات پڑھنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ ان مقالات میں الرسالہ کے بارے میں اپنے اپنے تاثرات کو بیان کیا گیا تھا۔ اور یہ بتایا گیا تھا کہ موجودہ ملکی اور بین اقوامی حالات میں اس کے پیغام کی کیا اہمیت ہے۔ یہاں ان مقالات کا مختصر تذکرہ کیا جاتا ہے۔

 مسٹرایم کے سنہا، سابق انسپکٹر جنرل آف پولیس،بہار نے اپنا مقالہ انگریزی میں پڑھا۔ اس میں انھوں نے دوسری باتوں کے علاوہ لکھا کہ آج ہمارے پاس انڈیا ہے، انڈین ہیں، مگر انڈین نس (Indianness) نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ الرسالہ ملک میں انڈین نس پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ان کے مقالہ کا ایک جملہ یہ ہے :

Al-Risala gives a correct lead to this vexed (communal) problem which is possibly due to politics becoming more and more complicated in re-cent times.

دوسرا مقالہ جناب مصطفی کمال صدیقی(اور نٹیل بینک آف کامرس) کا تھا۔ یہ مقالہ اردو میں تھا۔ انہوں نے اپنے تفصیلی تا ثرات بتاتے ہوئے کہا کہ اگر مجھ سے الرسالہ کی ڈیفنیشن (تعریف) پوچھی جائے تو میں کہوں گا کہ الرسالہ ایک ایسا مشن ہے جو جاگے ہوئے لوگوں کو جگانے کا کام کر رہا ہے۔ سوئے ہوئے لوگوں کو جگانا آسان ہوتا ہے۔ مگر جاگے ہوئے لوگوں کو جگانا انتہائی حد تک مشکل ہے۔

 اس کے بعد مس انشو مترا چو دھری (ایم اے انگلش، پٹنہ یونیورسٹی) نے اپنا انگریزی پیپر پڑھا۔ انھوں نے کہا کہ میں الر سالہ انگریزی کی مستقل قاری ہوں۔ مجھے اس کے پیغام سے اتفاق ہے۔ الرسالہ کرکٹ تھنکنگ پیدا کرتا ہے۔ میری تمنا ہے کہ میں سماج کی اصلاح کے لیے  الرسالہ کے اندازمیں کام کروں۔ ان کے مقالہ کا ایک جزءیہ تھا:

The publication of Al-Risala in Hindi, Urdu and English provides people across the country with ample scope to introduce themselves with reason and rationalism.

اس کے بعد حافظ محمد حفظ الرحمان صاحب (ر ضا ہائی اسکول، پٹنہ)نے اپنا اردو مقالہ پیش کیا۔ انھوں نے اپنی زندگی کے کچھ تجربات بتاتے ہوئے کہا کہ الرسالہ ہم کو اعراض کی تعلیم دیتا ہے۔ یہ اصول زندگی کی کامیابی کے لیے  بے حد اہم ہے۔ اعراض کا مطلب بزدلی نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جس آدمی کے اندر اعراض کی صفت آجائے وہ سب سے زیادہ بہادر آدمی ہے۔

 اس کے بعد پروفیسر ایس شہاب الدین دسنوی اسٹیج پر آئے۔ انھوں نے اپنا مقالہ پڑھا۔ ان کا مقالہ انگریزی میں تھا۔ انھوں نے اپنے مقالہ میں الرسالہ کے نقطہ ٔنظر سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں کو اپنی تعمیرِ نو کے لیے  اپنا ذہن بدلنا چاہیے :

Muslims should consider changing their own thinking which may lead to building up their own strength and help them in the reconstruction of the millat.

ذکیہ مشہدی صاحبہ نے اپنے اردو مقالہ میں کہا کہ مجھے الرسالہ کے پیغام سے پورا اتفاق ہے۔ انھوں نے کہا کہ الرسالہ کے مشن کو آگے بڑھانے کے سلسلہ میں اپنی بساط کے مطابق میں پورا تعاون کرنے کے لیے  تیار ہوں۔ یہ قوم وملک کی بہترین خدمت ہے۔

واصف امام صاحب نے اپنے انگریزی مقالہ میں الرسالہ کے مشن سے مکمل اتفاق کیا۔ انھوں نے کہا کہ الرسالہ کی تاثیر اتنی غیر معمولی ہے کہ کوئی بھی شخص پڑھنے کے بعد اس کو نظر انداز نہیں کر سکتا:

One can like Al-Risala, one can dislike Al-Risala, but one cannot ignore Al-Risala.

شفیع مشہدی صاحب نے اپنے اردو مقالہ میں کہا کہ الرسالہ اپنی ذات میں ایک آفاقی پیغام بن چکا ہے۔ وہ محض کسی قوم کے لیے  نہیں، محض کسی ملک کے لیے  نہیں بلکہ تمام انسانیت کے لیے  ہے۔

مسٹراے خان(منیجر، انڈین بینک)نے اپنے انگریزی مقالہ میں الرسالہ کے مشن کی تائید کی اور اس کو مسلمانوں کے لیے  صحیح راہ عمل بتایا۔ انھوں نے کہا:

Al-Risala's stand on peaceful co-existence is essentially a message to Muslims.

محمد رضی احمد صاحب نے اپنے ار دو مقالہ میں کہا کہ الرسالہ ایک عظیم تعمیری منصوبہ ہے۔ یہ بزدلی کا سبق نہیں بلکہ بہادری کی تعلیم ہے۔ یہ بے عملی کا نہیں بلکہ حقیقی عمل کا پیغام ہے۔

ڈ اکٹر شری نواس صاحب نے انگریزی میں اپنا مقالہ پیش کیا۔ انھوں نے الرسالہ کے تعمیری پیغام کی پوری حمایت کی۔ انہوں نے واضح لفظوں میں کہا :

Every Hindu must read Al-Risala for purity of heart and cleansing of head.

ڈاکٹر ایل اے خان دیگھانے انگریزی میں اپنا مقالہ پیش کیا۔ انھوں نے کہا کہ الرسالہ صرف ایک میگزین نہیں ہے بلکہ وہ ایک تحریک ہے۔ وہ روح اور دل اور دماغ کے لیے  ایک انقلاب ہے:

Al-Risala is not a magazine but a movement, a change and a revolution of soul, mind and heart.

ایس خالد رشید صاحب نے ہندی میں اپنا مقالہ پیش کیا۔ انہوں نے الرسالہ کے پیغام کی حمایت کی اور کہا کہ الرسالہ مانو مولیہ(انسانی قدروں) کے پر چار میں دلوں کو دل سے جوڑنے میں، اور نفرت کو پیارسے بدلنے میں سپھل ہوا ہے۔ اور یہ آج کے حالات میں بہت بڑی بات ہے۔

ڈاکٹر ایس ایف رب نے اپنے اردومقالہ میں کہا کہ الرسالہ کے مطابق، کسی بھی قوم کی ترقی یا تنزل کار از اس حقیقت میں ایسا ہوا ہے کہ اس کے افراد کے سوچنے کا انداز کیا ہے۔ آدمی جیسا سوچتا ہے ویسا ہی وہ بن جاتا ہے۔ اس لیے  الرسالہ کی کوشش ہے کہ وہ صحیح سوچ والے انسان بنائے۔

 ڈاکٹر ڈی ڈی گرو نے انگریزی میں اپنا مقالہ پڑھا۔ انھوں نے کہا کہ الرسالہ کی بیس اگر چہ مذہب ہے مگر وہ ریزن اور عقیدہ کی طرف رہنمائی کرتا ہے نہ کہ جذبات اور عقیدہ کی طرف۔ انھوں نے کہا:

Al-Risala refers to a path of reason and faith rather than emotion and faith.

یمین ثمر فضل صاحبہ نے اپنے اردو مقالہ میں کہا کہ الرسالہ عصری تقاضوں کے پیشِ نظر پوری دردمندی کے ساتھ قوم کے مسائل کاحل پیش کرتا ہے۔ وہ مستقبل کی تعمیر کا پیغام ہے۔

نعمان غنی دیو روی نے اپنے اردو مقالہ میں کہا کہ الرسالہ کی تحریر بڑی جاندار ہوتی ہے۔ مختصر جملوں میں بڑی اچھی اچھی باتیں پڑھنے کو ملتی ہیں۔ الرسالہ اس قابل ہے کہ اس کو اپنی زندگی کا رہنمابنایا جائے۔

 پرنسپل بلبیر سنگھ نے اپنے انگریزی مقالہ میں کہا کہ میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ الرسالہ کےذریعہ جس پیغام کی اشاعت کی جارہی ہے وہ براہ راست قارئین کے دل تک پہنچ رہا ہے۔

  I have come to the conclusion that the messages conveyed by Al-Risala go straight to the heart of the reader.

ڈاکٹر اختر حسین آفتاب نے اپنے اردو مقالہ میں کہاکہ میری نگاہ میں الرسالہ کا شمار اقوالِ زریں میں ہوتا ہے۔ وہ زندگی کے قیمتی اصولوں کو مختصر الفاظ میں پیش کر رہا ہے۔

 ریحانہ خانم صاحبہ نے اپنے اردو مقالہ میں کہا کہ تعمیرِ حیات کی ساری ضروری باتیں((inputsالرسالہ میں موجود ہیں۔ وہ بتاتا ہے کہ کامیابی کا راز یہ ہے کہ آدمی اپنے ذاتی خول سے باہر آئے اور اپنے ساتھ دوسروں کو بھی شامل کرے۔

 کوثر مظہری صاحب (پٹنہ یونیورسٹی) نے اپنے اردو مقالہ میں دوسری باتوں کے علاوہ کہا کہ الرسالہ کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ قرآن و حدیث کی تعلیمات کو عصری اسلوب اور جد ید علم کی روشنی میں پیش کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

ڈاکٹر رام شو بھت پر شاد سنگھ نے اپنے ہندی مقالہ میں کہا کہ الرسالہ ایک و چارا پچک اور پر بھا و کاری پتر یکا ہے۔ ہر آدمی کو اسے پڑھنا چاہیے ۔

 ڈاکٹر عبد الصمد صاحب نے اپنے اردو مقالہ میں کہا کہ الرسالہ تحریر کا جادو ہے۔ہر دور کی ایک زبان ہوتی ہے اور الرسالہ آج کے دور میں آج کی زبان میں بات کر تا ہے۔ اس کا پیغام وقت کے تقاضے کے عین مطابق ہے۔

 یہ پیش کیے گئے، مقالات کاضر وری خلاصہ ہے۔ کچھ مقالوں میں تنقیدی باتیں بھی تھیں۔ ان تنقیدوں کی وضاحت، مقالات پڑھے جانے کے بعد راقم الحروف کی طرف سے کی گئی ان تنقیدوں کا ذکر آئندہ سوال و جواب کے تحت کیا جارہاہے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom