کلام کی شرط
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيَقُلْ خَيْرًا أو ليصمت (صحيح البخاري،حدیث نمبر ۵۶۷۲صحیح مسلم،حدیث نمبر۴۸) ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ جو شخص اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اس کو چاہیے کہ وہ بہتر بات بولے ور نہ چپ رہے۔
جو شخص اللہ کو اس کے عظمت و جلال کے ساتھ مانے، جس کو یہ یقین ہو کہ قیامت کے دن اللہ اس کے ہر بول پر اس سے باز پرس کرنے والا ہے، وہ اپنی زبان کے بارے میں آخری حدتک محتاط ہو جاتا ہے۔وہ بولنے سے پہلے سوچتا ہے۔ وہ خدا کے یہاں جائزہ لیے جانے سے پہلے خود اپنا جائزہ لینے لگتا ہے۔
یہ مزاج اس کو اپنا نگر اں آپ بنا دیتا ہے۔ اس کی زبان پر خاموشی کا تا لالگ جاتا ہے۔ وہ صرف اس وقت بولتا ہے جب کہ بولنا فی الواقع ضروری ہو گیا ہو، اور جہاں حقیقی ضرورت نہ ہو وہاں وہ چپ رہنا پسند کرتا ہے۔
جو شخص اپنی نفسیات کے اعتبار سے ایسا بن جائے، اس کی زبان جب کھلے گی تو بھلی بات ہی کے لیے کھلے گی۔ لغویا بے ہودہ بات کے لیے اس کی زبان اس طرح بند ہو جائے گی جیسے اس کے پاس بولنے کے لیے الفاظ ہی نہیں۔
بہتر بات سے مراد وہ بات ہے جس سے کسی خدائی سچائی کا اعلان ہوتا ہو۔جس میں کسی مظلوم کی حمایت کی گئی ہو۔ جس سے انسانی بھلائی قائم کرنا مقصود ہو۔ جو خیر خواہی اور اصلاح کے جذبہ کے تحت ظاہر ہوئی ہو۔
اس کے برعکس غیر بہتر بات وہ ہے جس کا مقصد اپنے آپ کو نمایاں کرنا ہو۔ جس کے ذریعے ظالم کی تائید چاہی گئی ہو۔ جو بد خواہی اور ظلم کے جذبہ کے تحت نکلی ہو۔ جس کا نتیجہ یہ ہو کہ سویا ہوا فتنہ جاگ اٹھے اور خدا کی زمین میں فساد پھیل جائے۔
اللہ پر اور آخرت پر ایمان آدمی کو سنجیدہ اور ذمہ دار بناتا ہے۔ اور جو شخص حقیقی معنوں میں سنجیدہ اور ذمہ دار ہو جائے اس کا کلام ویسا ہی ہو جائے گا جس کا حدیث میں ذکر ہوا۔