دین ِفطرت
خورشید بسمل صاحب (پیدائش ۱۹۴۷)سے ۲۲ جون ۱۹۹۱ کو دہلی میں ملاقات ہوئی۔ وہ جموں کے رہنے والے ہیں۔ انھوں نے کئی سبق آموز واقعات بتائے۔
انھوں نے بتایا کہ ضلع راجوری میں ایک مقام کالا کوٹ ہے۔ یہاں ایک صاحب راجہ رام شرما ہیں۔ اس وقت وہ محکمۂ تعلیم میں ڈسٹرکٹ پلاننگ افسر ہیں۔ ان کے پاس ایک آدمی ان کی گائے خریدنے کے لیے آیا۔ انھوں نے کہا کہ میرے پاس گائے تو ہے، مگر اس کو حال میں باولے کتے نے کاٹ لیا ہے۔ اگر آپ یہ جاننے کے بعد بھی خریدنا چاہیں تو آپ اس کو خرید سکتے ہیں۔
کچھ دنوں بعد پاکستان ٹی وی دیکھتے ہوئے شرما صاحب نے ایک حدیث کا مضمون سنا۔ اس میں بتایا گیا تھا کہ مسلمان وہ ہے جو تجارت کے وقت اپنے سودے کی خرابی سے گاہک کو آگاہ کر دے۔ شرما صاحب کو یہ پروگرام سن کر اپنا گائے کا واقعہ یاد آیا۔ انھوں نے کہا : اس لحاظ سےتو میں بھی مسلمان ہوں۔ یہ حدیث سنن ابن ماجہ میں ہے۔ اس کے اصل الفاظ یہ ہیں :
عَنْ وَاثِلَةَ بْنِ الْأَسْقَعِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - يَقُولُ : مَنْ بَاعَ عَيْبًا لَمْ يُبَيِّنْهُ، لَمْ يَزَلْ فِي مَقْتِ اللَّهِ، وَلَمْ تَزَلْ الْمَلَائِكَةُ تَلْعَنُهُ(سنن ابن ماجه،حدیث نمبر۲۲۴۷)
واثلہ بن اسقع کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ جس آدمی نے عیب دار چیز بیچی اور خریدار کو اس کے عیب سے آگاہ نہیں کیا تو وہ برابر اللہ کی ناراضگی میں رہتا ہے،یا فرشتےبرابر اس پر لعنت کرتے رہتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ اسلام کوئی اجنبی چیز نہیں۔ اسلام دین فطرت ہے۔ ہر آدمی جس فطرت پر پیدا کیا گیا ہے، اسی کو اسلام الفاظ کی صورت دیدیتا ہے۔ اگر با ہمی نفرت اور قومی جھگڑوں کی فضا ختم کر دی جائے اور اسلام کی نمائندگی کرنے کے لیے صرف قرآن اور حدیث لوگوں کے سامنےہو تو بے شمار آدمی اسلام کو عین اپنے دل کی آواز سمجھیں گے اور اس کو اس طرح اپنا لیں گے جیسے کہ وہ خود ان کی اپنی چیز تھی جو کچھ عرصہ گم رہنے کے بعد دوبارہ انھیں واپس مل گئی۔
دین فطرت اپنے آپ میں ایک طاقت ہے۔ اس کو کسی مزید طاقت کی ضرورت نہیں۔