لحمِ خنزیر
خنزیر کا گوشت کھانا اسلام میں حرام ہے۔ حوالہ کے لیے قرآن کی حسبِ ذیل آیتیں ملاحظہ ہوں : البقره ۱۷۳، المائده ۳، الانعام ۱۴۵، النحل ۱۱۵۔ موجودہ زمانہ کے عیسائی حضرات اگر چہ خنزیر کا گوشت عملاً استعمال کر رہے ہیں۔ مگرمذ ہبی حکم کے اعتبار سے ان کے یہاں بھی خنزیر کا گوشت ممنوعہ غذاؤں میں سے ہے۔ بائبل کے حسبِ ذیل مقامات ملاحظہ ہوں :
اور سور کو کیوں کہ اس کے پاؤں الگ اور چرے ہوئے ہیں، پر وہ جگالی نہیں کرتا۔ وہ بھی تمہارے لیے ناپاک ہے۔ تم ان کا گوشت نہ کھانا۔ اور ان کی لاشوں کو نہ چھونا۔ وہ تمہارے لیے ناپاک ہیں (احبار ۱۱ : ۷)
اور سور تمہارے لیے اس سبب سے ناپاک ہے کہ اس کے پاؤں تو چرے ہوئے ہیں۔ پر وہ جگالی نہیں کرتا۔ تم نہ تو ان کا گوشت کھانا اور نہ ان کی لاش کو ہاتھ لگانا (استثناء ۱۴: ۸)
حلال جانور گویا قدرت کے زندہ کارخانے ہیں۔ وہ انسان کے لیے پروٹینی خوراک فراہم کرنے کا قیمتی ذریعہ ہیں۔ یہ حیوانات غیر غذا (non-food) کو غذا (food) میں تبدیل کرتے ہیں۔
بکری گھاس کھاتی ہے اور اس کو دودھ اور گوشت میں تبدیل کرتی ہے۔ چڑیاں کیڑے مکوڑے کھاتی ہیں اور ان کو گوشت میں تبدیل کرتی ہیں۔ مچھلیاں پانی کے معمولی جانور کھاتی ہیں اور ان کو قیمتی سفید گوشت میں تبدیل کرتی ہیں۔
مگر خنزیر کے اندر یہ صلاحیت نہیں۔ خنزیر نہ گھاس کھاتا ہے اور نہ کیڑے مکوڑے۔ اس کی خوراک گندگی ہے۔ اس کا گوشت گندگی سے بنتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خنزیر کے کھانے کا اثر آدمی کے مزاج پر پڑتا ہے اور اس کا اخلاق بگڑ جاتا ہے۔
خنزیر بیماری کا سبب بھی ہے۔ کیوں کہ اپنی گندی خوراک کی وجہ سے وہ اکثر بہت سی متعدی اور جراثیمی بیماریوں میں مبتلا رہتا ہے :
Pigs are subject to many infectious and parasitic diseases. (10/1282)
موجودہ زمانہ میں خنزیر کو سائنٹفک فارموں میں رکھا جاتا ہے اور اس کو گندی خوراک سے بچا کر دوسری خوراک کھلائی جاتی ہے۔ مگر واضح ہو کہ یہ دوسری خوراک "غیر غذا " نہیں ہوتی بلکہ خود غذا ہوتی ہے۔ یعنی جو خوراک آدمی کھاتا ہے، عین وہی خوراک نام نہاد سائنٹفک فارموں میں خنزیر کو کھلائی جاتی ہے۔ گویا خنزیر غذا کو غذا میں تبدیل کرتا ہے، جب کہ حلال جانوروں کا معاملہ یہ ہے کہ وہ غیر غذا کو غذا میں تبدیل کرتے ہیں۔
خنزیر گھاس یا کیڑے مکوڑے نہیں کھاتا۔ وہ غلہ کھا کر اس کو گوشت میں تبدیل کرتا ہے۔ مگر یہاں بھی اس کا معاملہ دوسرے غذائی حیوانات سے مختلف ہے۔ اس کا تبدیل کیا ہوا گوشت زیادہ ترچر بی ہوتا ہے۔ اس کا بہت کم حصہ گوشت کی صورت میں حاصل ہوتا ہے۔
فطرت کی خلاف ورزی
خنزیر کا لفظ اکثر زبانوں میں برا مفہوم رکھتا ہے۔ اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ خنزیرعام طور پر گندگی کھاتا ہے۔ اس بنا پر اس کے نام کے ساتھ گندگی کا تصور وابستہ ہو گیا۔ انگریزی میں کہتے ہیں:
Pig turns man into a pig.
یعنی سور(کا گوشت) آدمی کو بھی سور بنا دیتا ہے۔ وبیسٹر ڈکشنری میں لفظ پگ (pig) کا چوتھا مفہوم حسب ِذیل الفاظ میں لکھا ہوا ہے:
A person regarded as acting or looking like a pig, a greedy or a filthy person. (clloq)
یعنی سورجیسا آدمی، لالچی اور گندہ آدمی۔ فرانسیسی میں خنزیر کو کوشوں (couchon) کہتے ہیں۔ یہ لفظ فرانسیسی زبان میں پگ سے بھی زیادہ برے معنی رکھتا ہے۔
خنزیرکو گندی خوراک سے بچانے کے لیے موجودہ زمانہ میں اعلیٰ قسم کے بڑے بڑے فارم بنائے گئے ہیں۔ پگ کیپنگ (Pig-keeping) اب ایک مستقل فن بن گیا ہے۔ پگ فارموں میں ان کے لیے خاص طور پر صاف ستھری غذاؤں کا انتظام کیا جاتا ہے اور دوسری سہولیتیں فراہم کی جاتی ہیں۔
تاہم خنزیر کے فارم مغربی دنیا میں اب تنقید کا موضوع بن رہے ہیں۔ لندن کے اخبار گارجین(۲۹مئی ۱۹۸۳) میں دو کالم کا ایک مضمون شائع ہوا ہے جس کا عنوان ہے––––– کیا خنزیرختم ہونے والے ہیں:
Are pigs doomed?
مضمون نگار Ralph Whitlock نے دکھایا ہے کہ مغرب میں خنز یر کے جدید فارم اب دن بدن ناقابل برداشت ہوتے جارہے ہیں۔ کیو نکہ خنزیر مضمون نگار کے الفاظ میں انسان کا مدِ مقابل (Competitor) ہے یعنی وہ وہی خوراک کھاتا ہے جو انسان کھاتا ہے۔ خنزیر نہ گھاس کھاتا ہے اور نہ گوشت۔ اس کو غلہ کی بنی ہوئی چیز یں (ڈبل روٹی وغیرہ) کھلانی پڑتی ہیں۔ مزید یہ کہ خنزیر بہت پیٹو جانور ہے۔ وہ غیر معمولی طور پر زیادہ غذا کھاتا ہے۔ چند خنزیر اگر کسی بیکری میں داخل ہو جائیں تو وہ وہاں کی تمام ڈبل روٹی اور پنیر کھا کرختم کردیں گے۔
موجودہ زمانہ میں خنزیر کی خوراک میں کفایت کی خاص کوشش کی جارہی ہے۔ خنزیر کے فارموں میں کمپوٹروں کے ذریعہ ان کی خوراک پر کنٹرول کیا جاتا ہے تاکہ وہ ضرورت سے زیادہ نہ کھا سکیں۔ مگر ان ساری کوششوں کے بعد بھی خنزیر کا یہ حال ہے کہ اس کے لاشہ میں ایک پونڈ کا اضافہ کرنے کے لیے اس کو۵ پونڈ خوراک کھلانی پڑتی ہے :
Despite all modern aids to economic production, it still takes about 5 pounds of pig food to produce one pound of weight increase in the pig's carcase.
مضمون نگار کے الفاظ میں یہ خنزیر کی بنیادی کمزوری (Fundamental weakness) ہے۔ بکری اور گائے گھاس کو گوشت میں تبدیل کرتے ہیں۔ گو یا جس چیز کو انسانی معدہ براہ راست ہضم نہیں کر سکتا اس کو خود کھا کر دودھ اور گوشت کی صورت دیتے ہیں اور ہمارے لیے کھانے کے قابل بناتے ہیں۔ مگر خنزیر کے اندر یہ صلاحیت نہیں۔ وہ خود انسان کی غذا(ڈبل روٹی وغیرہ)کھاتا ہے۔ اور وہ بھی اس طرح کہ ۵ پونڈ انسانی غذا کھا کر صرف ایک پونڈ گوشت انسان کو واپس کرتا ہے۔ خنز یر صرف یہ کرتا ہے کہ سستی خوراک کو مہنگی خوراک بنا دے :
The pig can only translate a cheap food into an expansive one
مضمون نگار نے لکھا ہے کہ موجودہ زمانہ کا سب سے بڑا مسئلہ آبادی کا انفجار ہے۔ حتی کہ وہ ایٹمی جنگ سے بھی زیادہ بڑا خطرہ ہے۔
The population explosion is a far greater threat than that of nuclear war.
زمین پر انسانی آبادی ہندسی نسبت (Geometrical progression) سے بڑھ رہی ہے۔ ماہرین کے اندازہ کے مطابق ۲۰۱۵ میں دنیا کی موجودہ آبادی دگنا ہو جائے گی۔ ایسی حالت میں خنزیر کا مستقبل، مضمون نگار کے نزدیک، اکیسویں صدی میں یہ نظر آتا ہے کہ ان کی بہت بڑی تعداد کو چھاچھ اور ٹکڑوں کی خوراک مل سکے گی۔ اور بقیہ تمام خنزیر غذائی اشیاء کی قلت کے سب دوبارہ گندگی کھانے والے جانور (scavenger)بن کر رہ جائیں گے۔
معلوم ہوا کہ خنزیر یا تو گندگی کھاتا ہے یا انسانی خوراک۔ خنزیر کو خدا نے اس لیے بنا یا تھا کہ و ہ گندگی کو اپنی خوراک بناکر "صفائی کرم چاری" کا کام انجام دے۔ مگر انسان نے اس کو اپنی خوراک بنالیا اور اس کی خاطر جدید طرز کے بڑے بڑے فارم بنائے۔قدرت کے انتظام میں یہ مداخلت صرف اس قیمت پر ہوئی کہ انسان اپنی خوراک کا زیادہ حصہ اس کو کھلا کر اس سے اپنے لیے کم خوراک حاصل کرے۔
خدا نے اپنی دنیا میں جو نظام قائم کیا ہے، وہ حد درجہ حکمت پر مبنی ہے۔ اس میں مختلف پہلوؤں کی مجموعی رعایت پائی جاتی ہے۔ یہ نظام اتنا کامل ہے کہ ایک جزء میں کوئی فرق کیا جائے تو دوسرےتمام اجزاء میں اختلال پیدا ہو جاتا ہے۔
ایسی حالت میں انسان کے لیے واحد درست طریقہ یہ ہے کہ وہ قدرت کے نظام میں دخل اندازی سے بچے، وہ اس کی مکمل پیروی کرے۔ اگر آدمی نے قدرت کے اس نظام کو بدلنے کی کوشش کی تو وہ صرف اس قیمت پر ہو گا کہ اس کے بعد ماحول میں ایسی خرابی پیدا ہو جائے جس پر قابو پانا اس کے لیے ناممکن ہو۔
اخلاق پر اثر
جانوروں کا گوشت سادہ طور پر محض ایک خوراک نہیں ہے۔ اسی کے ساتھ اخلاقیات سے بھی اس کا گہرا تعلق ہے۔ بکری کا گوشت کھانے سے بکری والی صفات بنتی ہیں اور بھیڑیا کا گوشت کھانے سے بھیڑیا والی صفات۔ اسی طرح خنزیر کا گوشت بھی آدمی کے اندر مخصوص اخلاقی صفت پید اکرتا ہے۔ یہ صفت انسانی زندگی کے لیے ناپسندیدہ ہے۔ اس لیے اس کو شریعت میں حرام قرار دیا گیا ہے۔
اس معاملہ کو سمجھنے کے لیے ایک تقابلی مطالعہ کیجیے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ خنزیر کا گوشت زیادہ تر مغربی قوموں میں کھایا جاتا ہے۔ مشرقی قوموں میں بحیثیتِ خوراک اس کا رواج ناقابلِ ذکر حد تک کم ہے۔ مغربی قوموں میں خنزیر کی حیثیت ایک عام غذا کی ہے۔ اس کے برعکس مشرقی قوموں کی عام غذ اغلہ اور سبزی اور دودھ جیسی چیزیں ہیں۔ مشرق کی جن قوموں (مثلا ً مسلمان) میں گوشت کھایا جاتا ہے۔ وہ صرف حلال گوشت ہے جس میں خنزیر کا گوشت شامل نہیں،اب دونوں قوموں کا اخلاقی حیثیت سے تقابل کیجیے ۔ مشرقی قوموں میں مذہب اور روحانی علوم کا ارتقاء ہوا۔ دوسری طرف مغربی قوموں میں ایسے علوم کا ارتقاء نہ ہو سکا۔ ان کے در میان زیادہ تر ٹیکنکل علوم کو ترقی حاصل ہوئی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حلال غذا آدمی کے اندر ذوقِ لطیف پیدا کرتی ہے اور حرام غذا ذوقِ کثیف پیدا کرنے کا سبب بنتی ہے۔
اسی طرح قدیم زمانہ میں زیادہ تر مشرقی قوموں کو سیاسی اور فوجی غلبہ حاصل تھا۔ موجودہ زمانہ میں غلبہ کی حیثیت زیادہ تر مغربی قوموں کو حاصل ہوگئی ہے۔ گہرائی کے ساتھ دیکھیے تو مشرقی قوموں کے غلبہ کا زمانہ نسبتاً زیادہ پر امن نظر آئے گا۔ مشرقی قوموں نے کبھی اس بے رحمانہ درندگی کا ثبوت نہیں دیا جس کا نمونہ موجودہ مغربی قوموں میں دکھائی دیتا ہے۔
مغربی قوموں نے تاریخ کی سب سے زیادہ بھیا نک لڑائیاں چھیڑی ہیں۔ انھوں نے مہلک ہتھیاروں کو پہلی بار انڈسٹری کی حیثیت دے دی۔ آج یہ لوگ عالمی سطح پر قوموں کو صرف اس لیے لڑاتےہیں تاکہ یہ قو میں بھاری قیمت پر ان سے ہتھیار خریدیں اور ان کی وار انڈ سٹری کامیابی کے ساتھ چلتی رہے۔ وغیرہ۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حلال غذا آدمی کے اندر پر امن نفسیات پیدا کرتی ہے، اور حرام غذا آدمی کے اندر تشدد کی نفسیات پیدا کرنے کا سبب بنتی ہے۔