مخلصانہ ایمان
عَن زيد بن أَرقم رَضِي الله عَنهُ قَالَ قَالَ رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم من قَالَ لَا إِلَه إِلَّا الله مخلصا دخل الْجنَّة قيل وَمَا إخلاصها قَالَ أَن تحجزه عَن محارم الله (الترغيب والترهيب، 2/ 267)
زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ جوشخص اخلاص کے ساتھ لا الہ الا اللہ کہے وہ جنّت میں جائے گا۔ کہا گیا کہ اس کا اخلاص کیا ہے۔ آپ نے فرمایا۔ یہ کہ یہ کلمہ اسکو اللہ کی حرام کی ہوئی چیزوں سے روک دے۔
اخلاص اسی کیفیت کے لیے ایک دینی لفظ ہے جس کو نفسیات کی اصطلاح میں سنجیدگی کہا جاتا ہے۔ جو آدمی اس حقیقت کو جان لے کہ ایک اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، اور وہ فی الواقع پوری سنجیدگی کے ساتھ اس کا اقرار کرے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ اس کی زندگی اور اس کے قول وعمل میں اس کا اظہار ہونےلگے گا۔ سنجیدہ قول اور اس کے عملی اختیار میں کوئی فرق نہیں۔
ایک شخص جب یہ کہتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں، تو وہ حقیقۃ ً اپنی اس دریافت کو بیان کرتا ہے کہ اس کا ئنات میں ساری عظمتیں صرف ایک اللہ کو حاصل ہیں۔ اللہ کو اس کی تمام شان ِعظمت کے ساتھ جان لینے کے بعد آدمی کے اندر جو کیفیت ابھرتی ہے اسی کا نام اخلاص ہے۔
آدمی جب اللہ کو اس کے جلال و کمال کے ساتھ دریافت کرتا ہے تو اسی کے ساتھ وہ اپنے عجز اور اپنے احتیاج کو بھی دریافت کر لیتا ہے۔ یہ دریافت اس کے اندر عبدیت کا جذبہ ابھارتی ہے۔ وہ خدا کی نعمتوں کو جان کر شکر و سپاس کی کیفیت سے سرشار ہو جاتا ہے۔ موت کے بعد خدا کے سامنے حاضری کا تصور اس کو اپنے قول و عمل کے بارے میں آخری حد تک چوکنا بنا دیتا ہے۔ ان کیفیات کے مجموعہ کا نام اخلاص ہے، اور ان کے زیر ِاثر جو انسان بنتا ہے اس کا نام مخلص انسان ہے۔
اس نوعیت کا اخلاص جب کسی آدمی کے اندر پیدا ہو تو اس کے لیےنا ممکن ہو جاتا ہے کہ وہ خدا کے احکام کی خلاف ورزی کرے، وہ خدا کی منع کی ہوئی چیزوں کو اپنے لیے حلال کرلے۔
ایک سچے انسان کے لیے قول اور عمل میں کوئی فرق نہیں جو شخص سچے دل سے اللہ کی معبودیت کا اقرار کر ے گا، اس کے بعد ناممکن ہے کہ اس کا عمل اس کے اقرار کے تابع نہ ہو جائے۔