شما حذر بکنید
ریاض کے عربی ہفت روزہ الدعوة (۳۰ جمادی الاولیٰ ۱۴۱۰ ھ ، ۲۸ دسمبر ۱۹۸۹) میں قصة تحمل عبرة کے زیر عنوان ایک واقعہ شائع ہوا ہے۔ اس میں بہت بڑی نصیحت ہے۔ اس کے لکھنے والے طائف کے ایک عرب استاذ ابراهيم ع ن ہیں ۔ اس میں انھوں نےاپنا ایک ذاتی تجربہ بیان کیا ہے ۔
وہ لکھتے ہیں کہ مجھ کو مطالعہ کا بہت زیادہ شوق تھا ۔ ہر روز میں پانچ گھنٹہ سے زیادہ مطالعہ کرتا تھا۔ کوئی جریدہ یا مجلہ یانئی کتاب میں پڑھے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔ میں ان کو حرف بہ حرف پڑھتا تھا۔ یہاں تک کہ مطالعہ میری روزانہ زندگی کا ایک لازمی جزء بن گیا ۔ مگر آج میں بالکل اندھا ہوں ۔ اب میں کوئی بھی چیز اپنی آنکھ سے نہیں پڑھ سکتا۔
ایسا کیوں کر ہوا ۔ اس کی وجہ ان کے الفاظ میں یہ تھی کہ وہ بعض امور میں مفرط (حد سے تجاوز کرنے والے )بن گئے ۔ چنانچہ وہ گاڑی بہت تیز دوڑاتے تھے ۔ اور اسی کے نتیجےمیں یہ حادثہ پیش آیا ۔ وہ لکھتے ہیں کہ ایک روز میں اپنی گاڑی بہت زیادہ تیز دوڑا رہا تھا ۔ انتہائی تیزی کی بنا پر میری گاڑی راستہ سے ہٹ گئی ۔ وہ گیند کی طرح لڑھک گئی اور سٹرک کے کنارے ایک بھاری کھمبے سے جاکر ٹکر اگئی ۔
میرے سر میں سخت چوٹیں آئیں۔ اس کے بعد لمبے عرصہ تک میں اسپتال میں زیر علاج رہا ۔ ڈاکٹروں کی زبر دست کوشش اور جدید ترین طبی ذرائع کے استعمال کے باوجود میں دوبارہ اچھا نہ ہو سکا۔ اس کے نتیجے میں میں نے اپنی آنکھ کھو دی ۔ میں نے اپنی آنکھ کے علاج کے لیے ساری ممکن کوشش کر ڈالی ۔ مگر میری بینائی واپس نہ آسکی ۔ اب یہ حال ہے کہ میں بالکل اندھا ہو چکا ہوں ۔ اب میں اپنے شوق مطالعہ کو پورا کرنے پرقا در نہیں جو چھوٹی عمر سے میری زندگی میں شامل ہو گیا تھا ۔ اور آخر تک میری روزانہ زندگی کا جزء بنا رہا۔
یہ مضمون اس جملہ سے شروع ہوتا ہے کہ کوئی شخص نعمت کی قدر اس وقت تک نہیں پہچانتا جب تک وہ اسے کھو نہ دے (لَا أَحَدٌ يُدْرِكُ قِيمَةَ النِّعْمَةِ حَتَّى يَفقِدَهَا) اور اس فقرہ پر ختم ہوتا ہے کہ میں یہاں اپنا قصہ اس لیے بیان کر رہا ہوں کہ شاید وہ دوسروں کے لیے نصیحت ہو (و أَسُوقُ حِکَایَتِیْ هُنَا لَعَلَّ فيھا الْعِبْرَةُ لِلْآخَرِينَ )
اس واقعہ میں جو سب سے بڑا سبق ہے ، وہ یہ ہے کہ ––––– اس دنیا میں ایک کام کو کرنے کے لیے دوسرے کام کو چھوڑنا پڑتا ہے ۔ پورب کی طرف سفر کرنے کے لیے پچھم کی طرف سفر کرنے سے اپنے آپ کو باز رکھنا پڑتا ہے۔ اس دنیا میں جو شخص "چھوڑنے "کے لیے تیار نہ ہو وہ" پانے "کے بارے میں اپنے حوصلوں کو پورا نہیں کر سکتا۔
اگر آپ مطالعۂ کتاب کا فائدہ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو اپنی گاڑی کو ہلکی رفتار سے چلائیے تاکہ وہ حادثہ کی شکار نہ ہو ۔ اگر آپ تعلیم و تجارت کے میدان میں ترقی کرنا چاہتے ہیں تو جھگڑے کی باتوں سے اپنے آپ کو دور رکھیے ، ورنہ آپ کا تمام منصوبہ دوسروں سے ٹکراؤ کے نتیجے میں چور چور ہو جائے گا۔ اگر آپ صالح نظریات کی بنیاد پر انسانی زندگی کی تعمیر کرنا چاہتے ہیں تو حکمرانوں سے سیاسی نزاع نہ کیجئے ، ورنہ اصل تعمیری کام تو نہ ہوگا، البتہ حکمرانوں کے خلاف جھوٹی لڑائی میں آپ کا سارا وقت اور آپ کا سارا اثاثہ برباد ہو جائے گا ۔
اگر کوئی نادان آدمی خواہ مخواہ لڑ مرنے ہی کو اپنی زندگی کا مقصد بنالے تو ایسے آدمی کو اس حکمت کا لحاظ کرنے کی ضرورت نہیں ۔ مگر جس آدمی کا مقصد یہ ہو کہ وہ دنیا کے مواقع کو استعمال کر کے ایک کامیاب زندگی کی تعمیر کرے گا ، اس کے لیے لازم ہے کہ وہ زندگی کی اس حکمت کوآخری حد تک پکڑے اور کسی بھی حال میں اسے نہ چھوڑے ۔ اگر اس نے ایسا نہ کیا تو آخر میں اس کے حصہ میں اس کے سوا اور کچھ نہ آئے گا کہ وہ دوسروں کو اپنی بربادی کا قصور وار ٹھہرا کر ان کےخلاف احتجاج کرتا رہے، جب کہ وہاں اس کی اپنی ذات کے سوا کوئی اس کا احتجاج سننےکے لیے بھی موجود نہ ہو ۔