حکیمانہ تدبیر
دنیا مقابلہ کا میدان ہے۔ یہ مقابلہ اول دن سے جاری ہے اور آخری دن تک جاری رہے گا۔ مقابلہ کا یہ نظام خود خدا کا قائم کیا ہوا ہے۔ اس لیے کوئی شخص یا قوم اس کو بدلنے پر قادر نہیں ،خواہ وہ اس کے خلاف کتنا ہی زیادہ فریاد اور احتجاج کرے۔
مقابلہ کی اس دنیا میں کوئی شخص صرف حکیمانہ تدبیر سے کامیاب ہو سکتا ہے ۔ حکیمانہ تدبیر سے مراد یہ ہے کہ وہ اپنے اور دوسرے کے معاملہ کو گہرائی کے ساتھ سمجھے اور ایسے حالات پیدا کرے جس میں فیصلہ کا سرا اس کے اپنے ہاتھ میں آجائے ۔ اس بات کو ایک لطیفہ سے بخوبی طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ ایک سارس اور ایک لومڑی میں دوستی تھی ۔ ایک بار لومڑی نے سارس سے کہا کہ آؤ ہم دونوں مل کر کھیر پکائیں۔ کچھ سامان تم لاؤ اور کچھ سامان میں لاؤں۔ اس طرح کھیرتیار کی جائے اور پھر دونوں مل کر اسے کھائیں۔ چنانچہ دونوں سامان لے آئے اور کھیر پکا کر تیار کی گئی۔
جب کھیر کو نکال کر برتن میں رکھنے کا وقت آیا تو لومڑی فوراً ایک تھال لے آئی ۔ اس نے کہا کہ کھیر اس میں رکھی جائے گی۔ کھیر کو تھال میں رکھ کر لومڑی نے کھا نا شروع کر دیا اور سارس سے کہا کہ آؤ تم بھی کھاؤ ۔ تھال جیسے برتن میں کھا نا لومڑی کے لیے آسان تھا ۔ چنانچہ لومڑی ساری کھیر کھا گئی۔ سارس اپنی لمبی چونچ پھیلے ہوئے تھال میں ادھر ادھر مار تار ہامگر وہ کھیر کی بہت کم مقدار حاصل کرسکا۔
سارس نے اپنے دل میں کہا کہ لومڑی نے تو اس طرح مجھے بیوقوف بنا دیا۔ آخر کار اس نے سوچ کر ایک تدبیر نکالی ۔ اس نے لومڑی سے کہا کہ آؤ ایک بار اور ہم دونوں مل کر کھیر پکائیں۔ دوبارہ دونوں سامان لے آئے ۔ اور کھیر پکا کر تیار کی گئی ۔ اب سارس نے پیشگی منصوبہ کے مطابق فوراً ایک صراحی لا کر رکھ دی ۔ اور کہا کہ کھیر اس میں رکھی جائے گی۔ چنانچہ کھیر نکال کر صراحی میں رکھ دی گئی۔ سارس نے فور اً صراحی کے منہ میں اپنی لمبی چونچ ڈال کر کھیر کو کھا نا شروع کر دیا اور لومڑی سے کہا کہ تم بھی کھاؤ ۔ مگر اب صورت حال سارس کے حق میں تھی ۔ سارس نے خوب سیر ہو کر کھیر کھائی اور لومڑی بھو کی رہ گئی۔
انسانیت کی پوری تاریخ میں سارس اور لومڑی کی یہی کہانی دہرائی جارہی ہے ۔ جو لوگ کھیر کو اپنے موافق برتن میں رکھنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں وہ اس میں سے حصہ پاتے ہیں، اور جو لوگ کھیر کواپنے موافق برتن میں نہیں رکھ پاتے وہ اس سے محروم رہتے ہیں۔
اس تدبیر کی ایک شاندار مثال صلح حدیبیہ ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کے بعد آپ کے مخالفین (قریش) یہ چاہتے تھے کہ وہ آپ کے اور آپ کے معاملہ کو جنگ کے میدان میں طے کریں۔ کیوں کہ ان کا خیال تھا کہ جنگ کے میدان میں وہ زیادہ موافق پوزیشن میں ہیں۔ اس کے برعکس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ چاہتے تھے کہ معاملہ کو امن کے ماحول میں لے آئیں ۔ کیوں کہ امن کے ماحول میں نظریہ فیصلہ کن بنتا، اور نظریہ کے اعتبار سے شرک کے مقابلہ میں توحید کو واضح طور پر زیادہ برتر پوزیشن حاصل تھی۔ صلح حدیبیہ نے اسلام کو یہی موافق میدان فراہم کر دیا۔ چنانچہ اس کے بعد دو سال سے بھی کم عرصہ میں مکہ فتح ہو گیا۔
اب ہندستان کے مخصوص حالات کے اعتبار سے اس معاملہ پر غور کیجیے ۔ ہندستان میں مسلمانوں کا مقابلہ ہند و فرقہ سے ہے۔ مسلمانوں کو یہ شکایت ہے کہ ہندو ان کے اوپر ظلم کرتا ہے ۔ اور فرقہ وارانہ جھگڑوں میں انھیں سخت نقصان اٹھا نا پڑتا ہے ۔ نقصان کی بات بطور ِواقعہ درست ہے ۔ مگر یہ نقصان خود مسلمانوں کے سطحی قائدین کی نادانی کی بنا پر پیش آرہا ہے ۔ کیوں کہ وہ اپنی کم فہمی کی بنا پر مذکورہ تدبیر کو مسلمانوں کے حق میں استعمال نہ کر سکے۔
ہندو قوم اس وقت تین بڑے طبقوں پرمشتمل ہے ۔ ایک تعلیم یافتہ طبقہ جو ملک کے اکثر انتظامی اور سماجی عہدوں پر قابض ہے۔ دوسرا تاجر طبقہ جو ملک کی بیشتر اقتصادیات پر قبضہ کیے ہوئے ہے۔ تیسرا گر وہ ہندو عوام اور پسماندہ طبقات کا ہے۔ جو تعداد کے اعتبار سے ہندو قوم کا زیادہ بڑا حصہ ہیں۔
تعلیم یافتہ طبقہ اپنے تعلیمی مزاج کی بنا پر سیکولر یا سائنٹفک ڈھنگ سے سوچتا ہے ۔ وہ معاملات پر فرقہ وارانہ انداز کے بجائے حقیقت پسندانہ انداز میں رائے قائم کرتا ہے ۔ تاجر طبقہ کے سامنے اصلاً اس کا تجارتی مفاد ہے ۔ چوں کہ تجارت کی مشین کو جاری رکھنے کے لیے امن ضروری ہے، اس لیے وہ چاہتا ہے کہ ملک میں امن کا ماحول قائم رہے ۔ تاکہ اس کے تجارتی عمل میں کوئی رکاوٹ پیدا نہ ہو۔
تیسرا طبقہ زیادہ تر غریب اور بے روزگار یا کم آمدنی والے لوگوں پرمشتمل ہے۔ یہی طبقہ اصلاً تمام فساد میں ملوث ہوتا ہے۔ اس کا فائدہ دنگے اور فساد میں ہے ۔ کیوں کہ فساد میں اس کو لوٹنے کا موقع ملتا ہے۔ پر امن حالات میں لوٹنے والا فوراً فوجداری قانون کی زد میں آجاتا ہے۔ مگر فساد کے موقع پر جو لوگ لوٹ مار کرتے ہیں ان کو یہ اطمینان حاصل رہتا ہے کہ ملک کے موجودہ نظام میں ان کی کوئی قانونی پکڑ ہونے والی نہیں۔
ہندو قوم کے ان تین طبقات کو آسانی کی خاطر دو گروہ میں تقسیم کیا جا سکتا ہے ۔ ایک گروہ پہلے اور دوسرے طبقہ کا ۔ یہ پہلا گر وہ اپنے مزاج یا اپنے مفاد کے تحت فساد اور بدنظمی کو نہیں چاہتا۔ البتہ ان کے علاوہ ہندوؤں کا جو عوامی گروہ ہے اس کی ایک تعداد فساد میں دلچسپی رکھتی ہے۔ اسی گروہ کے افراد فرقہ پرست تنظیموں میں شامل ہوتے ہیں۔ یہی لوگ جلوس نکالتے ہیں اور مسلم مخالف نعرے بلند کرتے ہیں ۔ یہی لوگ مختلف طریقوں سے ایسی کارروائیاں کرتے ہیں جن سے مسلمان مشتعل ہو کر تشدّد کریں ۔ تاکہ انھیں مسلم بستیوں میں لوٹ مار کا موقع مل سکے۔
اب مسلمانوں کا فائدہ اس میں ہے کہ ملک میں جب بھی فرقہ وارانہ مسئلہ یا کشیدگی کی صورت پیدا ہو تو وہ "کھیر" کو اپنے موافق برتن میں رکھنے کی کوشش کریں۔ یعنی وہ حکیمانہ تد بیر کے ذریعہ اس کی کوشش کریں کہ مسئلہ کو طے کرنے کے لیے اس کو پہلے گروہ (ہند و خواص) کی سطح پر لایا جائے ۔ وہ دوسرے گروہ (ہندو عوام) کی سطح پر نہ جانے پائے۔ پہلے گروہ کی سطح پر معاملہ کا فیصلہ کیا جائے تو یہ فیصلہ ہمیشہ مسلمانوں کے موافق ہوگا۔ اور اگر وہ دوسرے گروہ کی سطح پر چلا گیا توشدید اندیشہ ہےکہ فیصلہ ان کے خلاف ہو جائے۔
اس مسئلہ کو سمجھنے کے لیے ایک واقعاتی مثال لیجیے۔ یہ مثال موافق برتن اور مخالف برتن کے نظریہ کو بہت اچھی طرح واضح کر رہی ہے ۔
ایک واقعہ
مدر اس میں ۶۰ ویلیج روڈ پر ایک مسجد بنائی گئی ہے ۔ یہ مسجد مسلم ویلفیر اسوسی ایشن کے زیر انتظام ہے ۔ اس مسجد پر اذان کے لیے لاوڈ اسپیکر لگایا گیا تو علاقہ کے کچھ ہندووٴں کو اس پر اعتراض ہوا۔ انھوں نے پولیس سے شکایت کی کہ لاوڈ اسپیکر پر اذان سے ہمارے گھروں اور ہمارے مندروں کے سکون میں خلل واقع ہوتا ہے ، اس لیے مسلمانوں کو لاوڈ اسپیکر پر اذان دینے سے روکا جائے مگر مدر اس پولیس نے اس شکایت پر کوئی کارروائی نہیں کی ۔
اس کے بعد ایک مقامی ہندو نے مدراس ہائی کورٹ میں رٹ پٹیشن داخل کیا، اور عدالت سے درخواست کی کہ لاوڈ اسپیکر کی اذان مقامی ہندؤوں کے لیے تکلیف (Nuisance) کا باعث ہے، اس لیے اس کو بند کرنے کا حکم جاری کیا جائے ۔
جسٹس بکتھا وت سولم نے دونوں فریقوں کے بیانات سننے کے بعد ۱۲ جولائی ۱۹۸۹ کو اپنا فیصلہ سنایا ۔ انھوں نے اپنے فیصلہ میں کہا کہ مجھے اس سے اتفاق نہیں ہے کہ یہ ایسا معاملہ ہے جس میں عدالت کو مداخلت کرنی چاہیے ۔ مدعی کے دلائل میری نظر میں تشفی بخش نہیں ہیں ۔ ایک جمہوری ملک میں ہر شخص کو حق ہے کہ وہ اپنے مذہب کے مطابق عبادت کرے ۔ اس طرح کے معاملات میں ضروری ہے کہ لوگوں کے اندر تحّمل اور رواداری (Tolerance) ہو، خاص طور پر ہندستان جیسے ملک میں جہاں مختلف مذاہب پر عمل کرنے والے لوگ پائے جاتے ہیں ۔ اس بناء پر میں نہیں سمجھتا کہ مدعی کی درخواست قابل لحاظ ہے۔ مجھے یقین ہے کہ مسجد میں لاوڈ اسپیکر کا استعمال عین قانون کے مطابق ہے ۔ اس اظہار خیال کے ساتھ مدعی کی درخواست خارج کی جاتی ہے :
With these observations, the writ petition will stand dismissed.
مدراس ہائی کورٹ کا فیصلہ مکمل اور اصلی صورت میں الرسالہ انگریزی (دسمبر ۱۹۸۹) میں دیکھا جا سکتا ہے ۔ یہ فیصلہ بتاتا ہے کہ ہندستان میں اگر کچھ لوگ متعصّب اور فرقہ پرست ہیں تو یہاں ان کے علاوہ دوسرے لوگ بھی ہیں جو بے تعصب اور انصاف پسند ہیں ۔ مزید یہ کہ یہ دوسرے لوگ اس حدتک طاقت ور ہیں کہ وہ پہلے گروہ کے ارادے کو عمل میں آنے سے روک دیں ۔
اب اس واقعہ پر ایک اور انداز سے غور کیجئے ۔ فرض کیجئے کہ مدر اس کی مذکورہ مسجد میں لاؤڈ اسپیکر کے استعمال پر جب ہندوؤں نے اعتراض کیا تو وہاں کے مسلمان بگڑ جاتے ۔ وہ اس کے مقابلہ میں جلسہ اور ایجی ٹیشن کی سیاست چلاتے ۔ وہ ہندوؤں سے ٹکراؤ کرتے ، تو اس کا نتیجہ کیا ہوتا۔ ہندوؤں کی ضد بڑھتی۔ ہندوؤں اور مسلمانوں میں فرقہ وارانہ لڑائی چھڑ جاتی ۔ اب و ہی واقعات پیش آتے جو شمالی ہند میں اسی قسم کے مسائل پر پیش آتے رہتے ہیں۔ یعنی دونوں فرقوں کے درمیان فساد ، اور پھر مسلمانوں کا یک طرفہ طور پر مارا جانا ۔ اور ان سب کے باوجوداصل مسئلہ کا اپنی جگہ بدستور باقی رہنا۔
ہائی کورٹ کے جج امکانی طور پر منتظر تھے کہ مسلمان ان کی عدالت میں اپنے مقدمہ کی پیروی کریں اور وہ عین مسلمانوں کے حق میں قانونی فیصلہ دے دیں۔ مگر مسلمانوں کی غیر حکیمانہ روش کے نتیجہ میں یہ ہوتا کہ تمام جج گویا انتظار میں پڑے رہتے اور مسلمان غیر ضروری طور پر مارے جاتے ۔ ان کی جائدادیں جلائی جاتیں ۔ لاؤڈ اسپیکر کو بچانے کے نام پر پوری مسجد ویران کر دی جاتی ۔ یہ امکان اپنی پوری موجودگی کے باوجود ، مسلمانوں کے حق میں واقعہ نہ بن سکتا۔ اس دنیا میں کوئی امکان اپنے آپ کسی کے حصہ میں نہیں آتا۔ یہاں ہر امکان کو استعمال کر نا پڑتا ہے ، اس کے بعد ہی وہ کسی کے لیے واقعہ بنتا ہے۔
مدر اس کا یہ واقعہ بتا تا ہے کہ ہندستان میں مسلمانوں کے لیے کامیابی کا عظیم امکان موجود ہے ، مگر مسلمان اب تک اس امکان کو استعمال نہ کر سکے ، اس لیے ان کے مسائل بھی اب تک حل نہیں ہوئے ۔ اس معاملہ میں مسلمانوں کے موجودہ رہنماؤں نے مجرمانہ حد تک غفلت کا ثبوت دیا ہے۔
مسجد کے معاملہ کو عدالت کے ذریعہ طے کرنا گویا کھیر کو اپنے موافق برتن میں رکھنا تھا۔ اس کے برعکس مسجد کا مسئلہ اگر عوامی مظاہرہ کا موضوع بنایا جاتا تو یہ کھیر کو ایسے برتن میں رکھنا ہوتا جو مسلمانوں کےلیے غیر موافق تھا۔ پہلی صورت میں کھیر پوری طرح مسلمانوں کے حصہ میں آئی ۔ جب کہ دوسری صورت میں کھیر تمام تر دوسرے کے حصہ میں چلی جاتی۔
اب ایک اور مثال لیجیے۔ یہ مثال وہ ہے جس کو مسلمانوں کے موجودہ مسائل میں نمبر ایک درجہ دیا جاتا ہے ۔ یہ اجودھیا کی بابری مسجد کا مسئلہ ہے۔
بابری مسجد کا مسئلہ
بابری مسجد ( اجودھیا) کا مسئلہ اگرچہ ملک کے بٹوارہ کے پہلے سے موجود ہے۔ تاہم اپنی موجودہ صورت میں اس کا آغاز فروری ۱۹۸۶ میں ہوتا ہے جب کہ فیض آباد ڈسٹرکٹ جج کے حکم سے اس کاتالا کھول دیا گیا اور ہندوؤں کو یہ موقع دیا گیا کہ وہ مسجد کے اندر اپنی مورتیاں رکھ دیں۔
اس کے بعدمسلمانوں (صحیح تر لفظ میں مسلمانوں کے نام نہاد لیڈروں )نے کیا کیا ۔ ان کے لیے عین وہی امکان موجود تھا جس کی ایک مثال مدر اس ہائی کورٹ کے فیصلہ کی صورت میں اوپر بتائی گئی ہے مگر مسلم لیڈروں نے اس امکان کو استعمال نہ کرتے ہوئے عین اس کے برعکس عمل کیا۔ مارچ ۱۹۸۶ میں بابری مسجد ایکشن کمیٹی بنائی گئی۔ اس نے فوراً ہی ایجی ٹیشن کے انداز میں اپنی سرگرمیاں شروع کر دیں۔
ملک کے مختلف حصوں میں جلسے کر کے جو شیلی تقریریں کی گئیں اور جلوس کے مظاہرے سڑکوں پر کیے جانے لگے ۔ ۲۶ جنوری ۱۹۸۷ کے بائیکاٹ کا اعلان کیا گیا ۔ مارچ ۱۹۸۷ میں تین لاکھ مسلمانوں کی ریلی دہلی میں نکالی گئی جس میں نعروں اور تقریروں کا ہنگامہ گرم کیا گیا۔ اعلان کیا گیا کہ اگست او راکتو بر۱۹۸۸ میں لاکھوں مسلمان مارچ کرتے ہوئے اجودھیا میں داخل ہوں گے اور بابری مسجد میں گھس کر جمعہ کی نماز پڑھیں گے ۔ شور وغل کی اس سیاست سے بابری مسجد تو مسلمانوں کو نہیں ملی ۔ البتہ فرقہ پرست ہندو جاگ اٹھے ۔ یوپی ، بہار، مدھیہ پردیش، گجرات وغیرہ میں فرقہ وارانہ فسادات ہوئے جن میں مسلمان ہزاروں کی تعداد میں مارے گئے ۔ اربوں روپیے کی جائدادیں برباد کر دی گئیں۔
جس وقت یہ سب کچھ ہو رہا تھا ، عین اس وقت اس مسئلہ کے حل کے لیے ایک انتہائی شاندارامکان مسلمانوں کے لیے اس ملک میں موجود تھا۔ مگر مسلم لیڈر اپنی ناقابل ِفہم بے خبری کی بنا پر نہ اس سے آگاہ ہوئے اور نہ اس امکان کو استعمال کرنے کی کوئی سنجیدہ تدبیر کر سکے۔
یہاں میں ایک خصوصی میٹنگ کا حوالہ دینا چاہتا ہوں جس کا تفصیلی تذکرہ الرسالہ جولائی ۱۹۸۸ میں چھپ چکا ہے۔ یہ میٹنگ نئی دہلی کے وٹھل بھائی پٹیل ہاؤس میں ۲۷ مارچ ۱۹۸۷ کو ہوئی۔ اس کا مقصد بابری مسجد (اجودھیا )کے مسئلہ کا حل تلاش کرنا تھا۔ اس میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے ذمہ دار حضرات شریک ہوئے ۔ مسلمانوں کی طرف سے جن لوگوں نے میٹنگ میں شرکت کی ، ان میں سے ایک میں بھی تھا۔ ہند وسائڈ میں مہنت اوید ناتھ (صدر رام جنم بھومی مکتی یگیہ سمتی )آچار یہ منی سوشیل کمار ، سنجےڈالمیا اور دوسرے بہت سے ذمہ دار حضرات شریک تھے ۔
جب تمام لوگ بول چکے تو میں نے ایک مختصر تقریر کی۔ ضروری پہلوؤں پر اظہار خیال کے بعد میں نے کہا کہ اس مسئلہ کے حل کے لیے سب سے زیادہ بہتر طریقہ ثالثی کا اصول ہے ۔ اگر دونوں فریق ثالثی کے اصول کو مان لیں تو میری تجویز ہے کہ مسلمہ تاریخ دانوں (تاریخ کے پروفیسروں) کا ایک بورڈ بنایا جائے ۔ دونوں طرف کے ذمہ دار لوگ اس بات کا پیشگی عہد کریں کہ تاریخ دانوں کا بورڈ جو فیصلہ کرے گا ، اس کو وہ بلا بحث مان لیں گے اور فوراً اس کی تعمیل کریں گے۔
ہند وسائڈ کے تمام لوگ، بشمول مہنت اوید ناتھ (موجودہ ایم پی) نے اس تجویز سے مکمل اتفاق کیا۔ ہر ایک نے کہا کہ ہم اس تجویز کو مانتے ہیں۔ اس کو باقاعدہ صورت دی جائے اور اس کے مطابق بابری مسجد- رام جنم بھومی قضیہ کا فیصلہ کیا جائے۔ مگر مسلم سائڈ نے اس تجویز کو منظور نہیں ہونے دیا۔ سید شہاب الدین صاحب تقریباً چیخنے کے انداز میں بولنے لگے کہ ہم کو یہ تجویز منظور نہیں ۔ مسلم سائڈ کے دوسرے تمام افراد نے خاموش رہ کر سید شہاب الدین کی بالواسطہ تائید کی۔ ان خاموش رہنے والوں میں جماعت اسلامی کے نمائندہ جناب افضل حسین صاحب (وفات یکم جنوری ۱۹۹۰) بھی شامل تھے ۔ اس طرح ہندو سائڈ کی متفقہ تائید کے باوجود یہ میٹنگ شور وغل پرختم ہوگئی۔
اب غور کیجیے کہ ۲۷ مارچ ۱۹۸۷ کی اس تجویز کو اگر مسلم رہنماؤں نے مان لیا ہوتا تو کیا ہوتا۔ اس کا اندازہ نہایت آسانی سے ان خطوط اور مضامین اور بیانات کے ذریعہ کیا جا سکتا ہے جو اس موضوع پر ہندؤوں کے تعلیم یافتہ طبقہ کی طرف سے بر ابر شائع کیے جاتے رہے ہیں۔ ۸۹ - ۱۹۸۷ کے درمیان اس قسم کی تحریر یں کثرت سے شائع ہوئی ہیں جن کو عام مسلمان بھی قومی آواز، تعمیر ِحیات ،نقیب ، دعوت ، نئی دنیا ، اخبارِ نَو وغیرہ کی فائلوں میں دیکھ سکتے ہیں ۔
یہاں میں صرف دو حوالوں کا ذکر کرنا چاہتا ہوں ۔ یہ دو حو الے بطورِ حصر نہیں ہیں بلکہ صرف بطور ِمثال ہیں۔ انھیں پر دوسروں کو بھی قیاس کیا جا سکتا ہے۔
جواہر لال نہرو یونیورسٹی (نئی دہلی )میں ایک بڑا تاریخی ادارہ ہے جس کو سنٹر فارہسٹا ریکل اسٹڈیز کہا جاتا ہے۔ اس ادارہ کے ۲۴ پروفیسروں نے بابری مسجد - رام جنم بھومی مسئلہ کا مطالعہ خالص تاریخی انداز میں کیا اور اس پر ایک مفصل دستاویز تیار کی ۔ یہ دستاویزان کی طرف سے مشترکہ طور پر شائع کی گئی ۔ اس دستاویز کا خلاصہ ٹائمس آف انڈیاد ۶ نومبر ۱۹۸۹ میں دیکھا جا سکتاہے ۔ اس دستاویز کا اردو ترجمہ قومی آواز (۲ جنوری ۱۹۹۰) میں شائع ہوا ہے۔
اس تاریخی دستاویز پر جن لوگوں کے دستخط ہیں ان میں پر و فیسر ایس گوپال ، پروفیسر رومیلا تھاپر ،پروفیسر بپن چندر جیسے ممتاز موٴرخین کے نام بھی شامل ہیں۔ اس مشترکہ تاریخی دستاویز میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ بابری مسجد تو ایک تاریخی واقعہ ہے ، مگر رام جنم بھومی کی کوئی تاریخی حقیقت نہیں۔ یہ ایک فرضی کہانی ہے جو زیادہ تر والمیکی کی افسانوی نظم (را مائن ) پر مبنی ہے ۔ اس کا معلوم تاریخ سے کوئی تعلق نہیں ۔
ان تاریخی پروفیسروں کے پیش کیے ہوئے حقائق اتنے قطعی تھے کہ خود ہندوؤں میں بھی کوئی اس کو علمی طور پر رد نہ کر سکا۔ مثلاً مسٹر کے آرملکانی (ٹائمس آف انڈیا ، ۵ جنوری ۱۹۹۰ )نے بالواسطہ طور پر اقرار کر لیا کہ رام جنم بھومی کا قصہ ابتدائی دور کا افسانہ (primitive myth) کی حیثیت رکھتا ہے۔ تاہم یہ مذہبی معاملہ ہے ، اس لیے اس کو پیشہ ور تاریخ دانوں کے ذریعہ طے نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے جواب میں ایک نہایت ممتاز دانشور ملک راج آنند (بمبئی) نے نہایت سخت تردیدی خط لکھا جو ٹائمس آف انڈیا ( ۱۸ فروری ۱۹۹۰ ) میں چھپا ہے۔
دوسرا حوالہ جو میں اس سلسلے میں دینا چاہتا ہوں ، وہ ایک واقعہ ہے جو مختلف اخباروں ،مثلاً اسٹیٹسمین ( ۶ جنوری ۱۹۹۰ )میں چھپا ہے۔ بعض اردو اخباروں میں بھی اس کی روداد آئی ہے ، مثلاً نئی دنیا ( ۲۷ جنوری ۱۹۹۰ ) اسٹیٹسمین کی رپورٹ کی نقل الگ صفحہ پرشائع کی جار ہی ہے۔
ہندستانی مؤرخوں کی ایک قدیم اور نہایت اہم تنظیم ہے جس کا نام انڈین ہسٹری کا نگرس ہے ۔ اس کے اجلاس ہر سال ملک کے مختلف حصوں میں ہوتے ہیں ۔ ۱۹۸۹ اس تاریخی انجمن کی گولڈن جوبلی کا سال تھا۔ اس کے تحت ۳۰ دسمبر ۱۹۸۹ - یکم جنوری ۱۹۹۰ کو اس کا اجلاس گورکھپور میں ہوا۔ میزبانی کے فرائض گورکھپور یونیورسٹی نے انجام دیے ۔ اس کا نگرس میں ملک کے مختلف حصوں سے ۳۰۰ سے زیادہ ڈیلی گیٹ شریک ہوئے ۔ یہ لوگ ملک بھر کی سوسے زیادہ یونیورسٹیوں کے شعبۂ تا ریخ سے تعلق رکھتےتھے۔
۱۹۸۶ میں جب بابری مسجد - رام جنم ( اجودھیا) کے مسئلہ نے شدت اختیار کی تو اس وقت انڈین ہسٹری کا نگرس نے اپنے اجلاس (۱۹۸۶) میں متفقہ طور پر ایک رزولیوشن منظور کیا تھا۔ یہ رزولیوشن انڈین ہسٹری کانگریس کی رپورٹ ۱۹۸۶ (صفحہ ۷۱۸) میں چھپا ہوا موجود ہے ۔ اس رزولیوشن میں اجلاس میں شریک ہونے والے تمام تاریخ دانوں نے متفقہ طور پر کہا تھا کہ :
"انڈین ہسٹری کانگرس ملک میں بڑھتی ہوئی فرقہ پرستی اور انتشار پسندی پر اپنی گہری تشویش کا اظہار کرتی ہے۔ اس رجحان کی ایک تشویش ناک مثال کسی فرقہ کی صدیوں پرانی عبادت گاہوں کو اس
Indian History Congress
Walk-out over Ayodhya issue
The communal politics of Ramjanambhoomi-Babri Masjid controversy intruded rudely into the annual Indian History Congress being held at Gorakhpur University, earlier this week, leading to a walk-out by over 300 delegates, including the president of the Congress and leading historians.
On December 30, 1989 the Indian History Congress unanimously adopted a resolution reiterating its stand taken since 1986 that "monuments of ancient and medieval times should be rigorously brought under the protection of Ancient Monuments Act, and no structural change should be allowed, and that wherever religious worship had ceased, it should not be allowed to be re-started, whatever be the religious de-nomination involved."
Following this the Vice-Chancellor of Gorakhpur University, Professor Ms Pratima Asthana, who was also the local secretary of the Congress received a request from a member of Parliament from Gorakhpur, Mahant Avaidyanath of the Vishwa Hindu Parishad, that he would like the opportunity of addressing the Congress. When this request was put before the delegates, it was resisted and rejected as this was not on the agenda and the Indian History Congress was not the place for a political statement on a contentious issue.
However, Professor Asthana walked into the Congress followed by the Mahant and the majority of delegates including the president of the Congress walked out. Mahant Avaidyanath then addressed a few delegates, some employees of Gorakhpur University and some RSS workers, while the majority of the delegates held a meeting outside. Apparently slogans and counter slogans were raised and after Mahant Avaidyanath left the Congress continued its sessions.
Among those who walked out were Professor Irfan Habib of Aligarh Muslim University, Professor Barun De of the Centre for Studies in Social Sciences, Calcutta. Professor Durga Prasad Bhattacharya of the Indian Statistical Institute, Calcutta, Professor A.Q. Rafeeq of Kashmir, Professor R. Champakalakshmi from Jawaharlal Nehru University and Professor Athar Ali, the President of the Congress.
Delegates expressed the view that even if all the Members of Parliament had done what Mahant Avaidyanath had done, the Congress would have reiterated its position. No request had been received from anyone to address the Congress while the agenda was being prepared for the annual Congress was a purely academic conference.
Historians resent the fact that an attempt was made by the Vishwa Hindu Parishad to use its forum for presenting a communal point of view and to create a disturbance at the Congress.
The Congress has nominated Professor H.L. Gupta, retired professor from Sagar University, as President of its next annual session.
The Statesman, New Delhi, January 6, 1990
بنیاد پر دوسرے فرقوں کی عبادت گاہوں میں تبدیل کرنے کی کوشش ہے کہ ان کو ان مقامات پر تعمیر کیا گیا تھا جہاں پہلے آخر الذکر فرقہ کی عبادت گاہیں تھیں۔ انڈین ہسٹری کا نگریس کا خیال ہے کہ ماضی کی تخریبی کارروائیوں کی داستانوں کو دہرانا تاریخ کے نام کو ناپاک مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کرنے کے ہم معنی ہے۔ اس بات کو نہ بھولنا چاہیے کہ اس تحریک کے رہنما جو شہادتیں پیش کرتے ہیں وہ اکثر مشکوک ہوتی ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ تحریک آزاد ہندستان کی سیکولر اقدار کے منافی ہے۔ ہسٹری کانگریس تمام لوگوں سے ، بالخصوص مؤرخوں سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ سائنس اور سیکولرزم پر اس حملہ کا ڈٹ کر مقابلہ کریں"۔ (خلاصہ)
گورکھپور کے اجلاس میں ۳۰ دسمبر ۱۹۸۹ کو اس سابقہ رزولیوشن کی نقلیں تمام شرکا ء کے درمیان تقسیم کی گئیں تاکہ موجودہ اجلاس میں دوبارہ اس کی توثیق کرائی جائے ۔ اس کی خبر مہنت اوید ناتھ کو ہوئی ۔ وہ رام جنم بھومی تحریک کے لیڈر ہیں۔ انھوں نے گورکھپور سے وشو ہندو پریشد کے ٹکٹ پر لوک سبھاکے چناؤ (۲۲ نومبر ۱۹۸۹ ) میں حصہ لیا اور کامیاب ہوئے۔
مہنت اوید نا تھ (ایم پی) کو اس کی خبر ملی تو انھوں نے گورکھپور یونیورسٹی کی خاتون وائس چانسلر پر تیما استھانا کے پاس درخواست بھیجی کہ ان کو ہسٹری کانگریس کے اجلاس میں تقریر کرنے کی اجازت دی جائے ۔ ہسٹری کانگریس کے مندوبین اس کے حق میں نہیں تھے ۔ تا ہم وائس چانسلر نے انھیں اجازت دے دی۔ مہنت اوید نا تھ آر ایس ایس کے کچھ نوجوانوں کے ساتھ اجلاس میں آگئے۔ کانگریس کے مندوبین کو اس پر سخت اعتراض ہوا ۔ یہاں تک کہ انھوں نے واک آؤٹ کر دیا۔ کہا جاتا ہے کہ تین سومند و بین میں سے صرف آٹھ آدمی اجلاس میں باقی رہے۔ مہنت اوید ناتھ نے ایک ایسے ہال میں تقریر کی جہاں زیادہ تر خالی کرسیاں ان کو سننے کے لیے موجود تھیں ۔
واک آؤٹ کرنے کے بعد مندوبین نے ہال کے باہر لان پر اپنی مٹینگ کی۔ اس میں مختلف یونیورسٹیوں کے شعبہ ٔ تاریخ کے پروفیسروں نے تقریریں کیں ۔ انھوں نے کھلے لفظوں میں اعلان کیا کہ ایک ایم پی تو در کنار ، پارلیمنٹ کے تمام ممبران بھی ہم کو اس راہ سے نہیں ہٹا سکے۔ جس کو ہم تاریخی طور پر درست سمجھتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ مہنت جی کا نام ایجنڈے میں شامل نہیں اس لیے انھیں ہسٹری کانگرس سے خطاب کرنے کا کوئی حق نہیں۔ انھوں نے اس بات پر سخت غصّےکا اظہار کیا کہ فرقہ پرست لوگ اپنے پروپیگنڈے کے لیے ہسٹری کانگرس کا پلیٹ فارم استعمال کر رہے ہیں۔ گورکھپور یونیورسٹی کےطالب علموں کی بڑی تعداد نے بھی کھل کر اس کی حمایت کی ۔
اس معاملہ نے اتنی شدت اختیار کی کہ بعد کو خود وائس چانسلر پر تیما استھانا نے کھل کر اپنی غلطی کااعتراف کیا ۔ اور اگلے اجلاس میں مندوبین سے معافی مانگی۔
مہنت اوید نا تھ جب خالی کرسیوں کو خطاب کر کے واپس چلے گئے تو مند و بین دوبارہ اسمبلی ہال میں واپس آئے اور ایک بار پھر انھوں نے اتفاق رائے سے وہ رزولیوشن منظور کیا جو دسمبر ۱۹۸۶ میں متفقہ طور پر منظور کیا جا چکا تھا۔ اس سلسلہ میں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ کانگرس کے آٹھ مندوبین جو واک آؤٹ میں شریک نہیں ہوئے تھے ، وہ بھی اس رزولیوشن کی مخالفت کی جرأت نہ کر سکے ۔ جب رزولیوشن پر رائے شماری کی گئی تو اجلاس کے ایک شخص نے بھی اس کی مخالفت میں اپنا ووٹ نہیں دیا۔
اوپر کے حوالوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہند ؤوں کا دانشور اور مؤرخ طبقہ عام طور پر غیرفرقہ وارانہ انداز میں سوچتا ہے۔ وہ معاملات پر سائنٹفک انداز سے رائے قائم کرتا ہے۔ اس حقیقت کو سامنے رکھیے تو نہایت آسانی کے ساتھ یہ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اگر ۲۷ مارچ ۱۹۸۷ کی تجویز کو مسلم لیڈروں نے منظور کر کے اس پر عمل درآمد کیا ہوتا تو اس کا نتیجہ کس صورت میں نکلتا۔ یہ یقینی طور پر" کھیر" کو اپنے موافق برتن میں رکھنے کے ہم معنی ہوتا ۔ کیوں کہ تاریخ دانوں کا بورڈ اپنے علمی ذہن کی بنا پر تاریخی حقائق کی بنیاد پر فیصلہ کرتا۔ اور جب تاریخی حقائق کی بنیا د پر فیصلہ کیا جاتا تو وہ عین مسلمانوں کی موافقت میں ہوتا ۔
یہاں مسلمانوں کے نادان لیڈروں نے ناقابلِ معافی ملی جرم کیا ہے ۔ ان لوگوں کے لیے یہ موقع تھا کہ اجود ھیا مسئلہ کی "کھیر "کو اپنے موافق برتن میں رکھوائیں۔ مگر انھوں نے ناقابل فہم نادانی کے تحت اس کو اپنے غیر موافق برتن میں رکھ دیا۔ مورخین سے فیصلہ لینے کے بجائے انھوں نے یہ کیا کہ مسئلہ کوعوامی مظاہروں کا عنوان بنایا ۔ وہ سڑکوں پر اس کا فیصلہ کرنے کی طرف دوڑ پڑے۔ یہ کھیر کو اس برتن میں رکھنے کےہم معنی تھا جو فریق ثانی کے لیے زیادہ موافق ہو۔ اس کے بعد جو نتیجہ نکلا وہ عین وہی تھا جو قانونِ قدرت کےتحت پیش گی طور پر اس کے لیے مقدر تھا۔ ایک فریق ساری کھیر کھا گیا ، اور دوسرا فریق بے بسی کے ساتھ اس کو دیکھتا رہا ، اور کچھ نہ کر سکا۔