قابل غور
اسلام کی تاریخ میں سب سے زیادہ ہولناک واقعہ وہ ہے جس کو " تا تاری حملہ" کہا جاتا ہے ۔ منگول قبائل تیرھویں صدی عیسوی میں مسلم دنیا پر ٹوٹ پڑے اور سمر قند سے لے کر عراق تک ہر چیز کو تباہ کر ڈالا۔ ۱۲۵۸ء میں وہ ہلاکو کی سرداری میں بغداد میں داخل ہوئے۔ انھوں نے شہر کو ڈھا دیا اور تقریباً ۸ لاکھ آدمیوں کو ہلاک کر ڈالا ۔ آخری عباسی خلیفہ المعتصم کو ذلت کے ساتھ قتل کر دیا۔ اس وقت ایک مسلمان عالم الحافظ ابن سیّد النّاس زندہ تھے۔ کچھ لوگ ان کے پاس گئے اور کہا کہ مسلمانوں کی بربادی اپنی انتہا کو پہونچ گئی ۔ اس کے باوجود اللہ کی رحمت و نصرت نازل نہیں ہو رہی ہے ۔ آخر اس کا سبب کیا ہے ۔ بزرگ نے جواب دیا :
أَنْتُمْ تَسْتَبْطِئُونَ الرَّحِمَ وَأَنَا أَسْتَبْطِئُ الرَّجْمَ .
تم سمجھتے ہو کہ رحمت اترنے میں دیر ہو رہی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ آسمان سے پتھر برسنے میں دیر ہو رہی ہے ۔
صحیح بخاری میں زبیر بن عدی سے روایت آئی ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم حضرت انس بن مالک کے پاس گئے اور حجاج کے ظلم کی شکایت کی۔ انھوں نے کہا کہ صبر کرو ۔ کیوں کہ اب تمہارے او پر جو بھی زمانہ آئے گا وہ پہلے سے زیادہ برا ہوگا۔ یہاں تک کہ تم اپنے رب سے مل جاؤ ۔ ایساہی میں نے تمہارے نبی سے سنا ہے (مشکاۃ المصابیح ، الجزء الثالث ، صفحہ ۱۴۸۳)
ان دونوں باتوں کو ملاکر دیکھئے تو آج کا زمانہ مسلمانوں کے زوال کے اعتبار سے پچھلے تمام زمانوں سے زیادہ برا ہے ۔ آج مسلمانوں کا سب سے بڑا مسئلہ ان کا داخلی بگاڑ ہے نہ کہ دوسری قوموں کا ظلم۔ یہ حقیقت آج ہر مسلمان کو معلوم ہے ۔ آپ جس مسلمان سے بات کیجئے ، وہ مسلمانوں کی برائی کرتا ہوا دکھائی دے گا۔ وہ کہے گا کہ مسلمان اپنے دینی اور اخلاقی زوال کی انتہا پر ہیں مگر جب ہندو اور مسلمان کی بات ہو تو وہی مسلمان فور اً یک طرفہ طور پر ہندو کی برائی کرنے لگے گا۔ اب اچانک مسلمان" خیر امت" بن جائیں گے اور ہندو "کُفّار لا اِعتبار" کا درجہ اختیار کرلیں گے ۔
یہ عصبیت جاہلیہ ہے ۔ اس کا نام قوم پرستی ہے نہ کہ خدا پرستی ۔