نماز
حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آدمی اور کفر کے درمیان ترکِ صلاۃ ہے۔بَيْنَ الرَّجُلِ وَبَيْنَ الْكُفْرِ تَرْكُ الصَّلَاةِ۔( صحيح مسلم، ٨٢) حضرت عمر نے فرمایا کہ نماز دین کا کھمبا ہے۔ الصَّلَاةُ عِمَادُ الدِّينِ (کنز العُمّال، 21618)نماز "اللہ اکبر "کے قول سے شروع ہوتی ہے اور " السلام علیکم ورحمۃ اللہ "کے قول پرختم ہوتی ہے۔ جیسا کہ حدیث میں آیا ہے: تَحْرِيمُهَا التَّكْبِيرُ وَتَحْلِيلُهَا التَّسْلِيمُ
نماز کی ابتدائی تیاری وضو سے شروع ہوتی ہے ۔ وضو کے بارے میں حدیث میں آیا ہے کہ اس شخص کی نماز نہیں جس کا وضو نہ ہو اور اس کا وضو نہیں جس نے اس پر اللہ کے نام کو یاد نہ کیا (لا صَلاةَ لِمَنْ لا وُضُوءَ لَهُ، وَلا وُضُوءَ لِمَنْ لَمْ يَذْكُرِ اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهِ(سنن ابن ماجه، 398)وضو حقیقۃ ً ایک قسم کی عملی دعا ہے۔ آدمی اپنے جسم کے کچھ نمائندہ حصوں کو دھوکر اللہ تعالیٰ سے درخواست کرتا ہے کہ اسی طرح تو اپنی رحمت کے پانی سے میرے پورے وجود کو پاک کر دے، تو میرا تزکیہ کر کے مجھے جنت میں داخل کر دے۔
مؤذن جب اذان کے کلمات کہتا ہے تو اس کے بارے میں حکم ہے کہ تمام نمازی اس کوسن کر اسی طرح اپنی زبان سے دہرائیں۔ یہ دہرانا در حقیقت مؤذن کی پکار پر لبیک کہنا ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بندہ اس دینی عمل کے لیے پوری طرح تیار ہے جس کی طرف اس کو بلایا گیا ہے۔
اس کے بعد آدمی اللہ اکبر( اللہ سب سے بڑا ہے) کہہ کر نماز میں داخل ہو جاتا ہے۔ یہ اس حقیقتِ واقعہ کا اعتراف ہے کہ اس دنیا میں بڑائی صرف ایک خدا کے لیے ہے ۔ پھر آدمی ادب سے کھڑا ہوتا ہے ، وہ جھکتا ہے اور زمین پر اپنا سر رکھ دیتا ہے ۔ یہ اس بات کا عملی اقرار ہے کہ خدا بڑاہے ، میں چھوٹا ہوں ۔ میں آخری حد تک اس کی اطاعت کرنے کے لیے تیار ہوں ۔
آخر میں نمازی اپنے دائیں اور بائیں چہرہ پھیر کر کہتا ہے کہ السّلامُ عَليكُمْ وَرَحْمَةُ الله اس طرح گویا وہ زمین پر بسنے والے تمام لوگوں کے لیے سلامتی اور خیر خواہی کے جذبہ کااظہار کرتا ہے۔ خدا کو گواہ بنا کر وہ عہد کرتا ہے کہ وہ دنیا میں اس طرح رہے گا کہ اس کی وجہ سے کسی کی سلامتی کو کوئی خطرہ لاحق نہ ہو ، ہر ایک کی جان اور مال اور آبرو، ہر چیز اس سےمحفوظ اور مامون رہے ۔