درجات کی بلندی
موجودہ دنیا امتحان کی دنیا ہے ۔ یہاں ہر ایک کو آزادی ہے کہ وہ جو چاہے کرے ۔ قیامت آنے سے پہلے یہ آزادی ختم ہونے والی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ دنیا میں جس طرح حق اور انصاف کے نمونے ہیں، اسی طرح یہاں ظلم اور زیادتی کے واقعات بھی ہوتے رہتے ہیں۔
یہ ایک ابدی مسئلہ ہے ۔ یہ انسانِ اول( آدم )کے زمانہ میں ہابیل اور قابیل کی نزاع کی صورت میں شروع ہوا اور قیامت کے ظہور تک جاری رہے گا۔ ایسی حالت میں ظلم وزیادتی کے مسائل کا حل کیاہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طرح زندگی کے دوسرے معاملات میں رہنمائی دی ہے ، اسی طرح آپ نے زندگی کے اس نازک معاملہ میں بھی رہنمائی دی ہے۔ وہ رہنمائی یہ ہے :
قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ألا أخبركم بعمل يرفع الله به الدرجات۔ قالوا بلی يارسول الله۔ قال : تحلم على من يجھل عليك وتعفو عمن ظلمك وتعطى من حرمك وتصل من قطعک۔ان الفاظ کا حوالہ نہیں ملا
عبادةَ بنِ الصَّامتِ قَالَ: قَالَ رسولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم: " ألا أدلُّكُم على ما يرفعُ اللَّهُ به الدرجاتِ؟ قَالُوا: نَعَم يا رسولَ اللَّهِ، قَالَ: "تَحْلُمُ عن من جَهِلَ عَلَيك، وتَعْفُو عمَّن ظَلَمَكَ، وتُعطي من حَرَمَك، وتصلُ من قَطَعَكَ"( مسند البزار، 1826)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ کیا میں تم کو ایساعمل نہ بتاؤں جس کے ذریعہ اللہ درجات کو بلند کرتاہے ۔ لوگوں نے کہا کہ ہاں اے خدا کے رسول ۔ آپ نے فرمایا۔ جو شخص تم سے جہالت کرے تم اس سےدر گزر کر و، جو شخص تمہارے ساتھ ظلم کرے تم اس کو معاف کر دو، جو شخص تم کو نہ دے تم اسے دو۔جو شخص تم سے کٹے تم اس سے جڑو ۔
اس حدیث کے الفاظ پر غور کیجیے ۔ اس کے مطابق ، درجات کی بلندی کا راز یہ ہے کہ آدمی جوابی اخلاق سے مکمل پر ہیز کرے۔ وہ اشتعال انگیزی کے باوجود در گذر کا طریقہ اختیار کرے ۔ لوگ ظلم کریں تب بھی وہ انہیں معاف کر دے۔ لوگ محروم کرنے کی سازشیں کریں پھر بھی وہ ان کو دینے کا سلسلہ بند نہ کرے۔ لوگ دوری اختیار کر یں تب بھی وہ ان سے قریب ہونے کی کوشش جاری رکھے ۔
یہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے جو لوگ اس طریقہ پر چلیں وہ آپ کے مومن ہیں۔ جو لوگ اس طریقہ کو چھوڑ دیں، حتیٰ کہ اپنے زبان و قلم سے اس کی تردید کریں ، وہ بلاشبہ آپ کے منکر ہیں،خواہ بطورِ خود وہ اپنے آپ کو مومن کامل سمجھتے ہوں۔