اسلوب دعوت کا مسئلہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت سے پہلے اپنی پیغمبرانہ زندگی کے تقریباً  تیرہ سال مکہ میں گزارے ۔ یہ آپ کی زندگی کا خالص دعوتی مرحلہ تھا ۔ اس ابتدائی مرحلہ کی تفصیل بتائے ہوئےابن اسحاق کہتے ہیں :

فَلَمّا بَادَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَوْمَهُ بِالْإِسْلَامِ و صَدَّعَ بِهِ كَمَا أَمَرَهُ اللَّهُ لَمْ يَبْعُدْ مِنْهُ قَوْمُهُ وَلَمْ يَرُدُّوا عَلَيْهِ ، حَتَّى ذَكَرَ آلِهتَهُم وَعَابَهَا فَلَمّا فَعَلَ ذَلِكَ أَعْظَمُوهُ وَنَاكَرُوهُ و أَجْمَعُوا خِلَافَهُ وَعَدَاوَتَهُ . . (سيرة ابن ہشام، الجزء الاول صفحہ ۷۶-۲۷۵) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اپنی قوم کےسامنے اسلام کا اظہار کیا اور کھلم کھلا اس کا اعلان فرمایا جیسا کہ اللہ نے آپ کو حکم دیا تھا ، تو آپ کی قوم نے آپ سے دوری اختیار نہ کی اور نہ آپ کا رد کیا۔ یہاں تک کہ آپ نے ان کے معبودوں کا ذکر کیا اور ان پر عیب لگایا۔ تو جب آپ نے ایسا کیا تو انھوں نے آپ کو اہمیت دی اور اس کا انکار کیا اور آپ کی مخالفت اوردشمنی پر متحد ہو گئے     ۔

اس بیان میں "عیب "سے مراد وہی چیز ہے جس کو آج کل تنقید کہا جاتا ہے۔ اس کامطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتدائی (تین سال) تک سادہ اور غیر تنقیدی انداز میں قریش کے سامنے اپنی بات رکھی۔ اس کے بعد آپ نے تنقیدی انداز اختیار فرمایا ۔ ابتدائی مرحلہ میں آپ کے مخاطبین نے کوئی برہمی ظاہر نہیں کی ۔ مگر جب آپ نے ان کے معبودوں (بالفاظ دیگر اکابر قوم)  پر تنقید کی تو وہ سخت برہم اور مشتعل ہو گئے    ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر مستقل طور پر غیر تنقیدی انداز میں کلام کرتے رہتے اور قر آن میں بھی تنقیدی آیتیں نہ اتر تیں تو عرب کے لوگ وہ مخالفت اور دشمنی اختیار نہ کرتے تو انھوں نے بعد کو اختیار کی۔ اس کے باوجود کیوں ایسا ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس قسم کی تمام مصلحتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے تنقیدی اسلوب پر قائم رہے ۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ غیر تنقیدی نوعیت کا روحانی اور اخلاقی انداز ذاتی مقبولیت یا عوامی بھیڑ جمع کرنے کے لیے تو بہت کار آمد ہے، مگر وہ اصل مقصد کے لیے کارآمد نہیں ۔ غیر تنقیدی انداز لوگوں کو سننے میں بہت اچھا لگتا ہے ، مگر وہ ذہنوں میں ہلچل پیدا نہیں کرتا۔ اس سے وہ فکری انقلاب نہیں آتا ، جب کہ آدمی کی سوچنے کی صلاحیت جاگتی ہے ۔ اس پر ایک چیز کا غلط ہونا منکشف ہوتا ہے اور دوسری چیز کے صحیح ہونے کو وہ شعوری طور پر دریافت کرتا ہے۔ اسلام کو وہ افراد مطلوب ہیں جو انقلابی (کرانت کاری )ذہن رکھتے ہوں ، اور تنقیدی انداز ِدعوت کے بغیر ایسے افراد کا بننا ہر گز ممکن نہیں ۔

غیر تنقیدی اسلوب غیر فطری اسلوب ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ صحیح بھی صحیح ہے اور غلط بھی صحیح ۔ یہی وجہ ہے کہ جو تحریک غیر تنقیدی انداز میں چلائی جائے ، اس سے مصنوعی شخصیت پیدا ہوتی ہے ، اس کے ذریعہ کبھی مطلوب اسلامی شخصیت پیدا نہیں کی جاسکتی ۔

رات کے وقت تالاب میں شبنم گرتی ہے ۔ مگر اس سے تالاب کے پانی میں کوئی تموج پیدا نہیں ہوتا۔ لیکن اسی تالاب میں ایک بڑا پتھر پھینک دیجئے تو اس سے ٹھہرے ہوئے پانی میں زبر دست تموّج پیدا ہو جائے گا۔ اس مثال سے تنقیدی اور غیر تنقیدی اسلوب کے فرق کو سمجھا جا سکتا ہے ۔ غیر تنقیدی اسلوب شبنم کی مانند ہے ۔ اس سے آدمی کو ایک روحانی سکون توملتا ہے مگر اس سے اس کے سینے میں اضطراب پیدا نہیں ہوتا ۔

 مگر یہ مطلوب اسلامی شخصیت نہیں ۔ حدیث میں بتایا گیا ہے کہ ایمان امید اور خوف کےدرمیان ہے (الْإِيمَانُ بَيْنَ الرَّجَاءِ وَالْخَوْفِ .) مومن کو ایک طرف امید ہوتی ہے کہ خدا رحیم و کریم ہے ، وہ اس کو بخش دے گا۔ دوسری طرف اس کو اندیشہ ہوتا ہے کہ خدا عادل ہے، وہ اس سے حساب لے گا، اور جس کا حساب لیا گیا وہ ہلاک ہوا  (مَنْ نُوقِشَ فَقَدْ ھَلَكَ . ) اس بنا پر مومن ہمیشہ "ففٹی ففٹی" کے درمیان ہوتا ہے ۔ یہ چیز اس کو ایک پر اضطراب شخصیت بنا دیتی ہے ۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام اصحاب رسول ہمیشہ اضطراب کی نفسیات میں رہتے تھے ۔ ان میں سے کوئی شخص بھی پرسکون شخصیت کا حامل نہ تھا۔

ایمان موجودہ دنیا میں درد ہے اور آخرت میں راحت ۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom