ذہنی سفر
سید شفیع الدین صاحب ایک اعلی ٰتعلیم یافتہ مسلمان ہیں۔ وہ الرسالہ اردو، انگریزی دونوں کے مستقل قاری ہیں۔ وہ جدید تعلیم یافتہ مسلمانوں کے ایک حلقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس حلقہ کے لوگوں نے جب الرسالہ کو پڑھنا شروع کیا تو یہ مطالعہ ان کے لیے ایک قسم کا ذہنی سفر بن گیا ۔ اس سفر میں طرح طرح کے مراحل آئے۔ وہ مختلف نشیب و فراز سے گزرتے ہوئے آخر کار مکمل اتفاق تک پہونچ گئے ۔ سید شفیع الدین صاحب انگریزی کے شاعر بھی ہیں ۔ انھوں نے اپنے اور دوسرے لوگوں کے مذکورہ ذہنی سفر کو ایک نظم میں نہایت خوبی کے ساتھ بیان کیا ہے۔ سفر کی یہ روداد صرف ایک خاص حلقہ کی نہیں بلکہ بہت سے قارئین الرسالہ کی روداد بھی ہے ۔ ان کی یہ نظم نیچے نقل کی جاتی ہے اور مقابل کے صفحہ پر اس کا اردو ترجمہ درج ہے ۔
مراحل : الرسالہ کی تاثیر
میں غضب ناک ہوں اور مشتعل ہو رہا ہوں
بے چینی کے ساتھ بل کھاتا ہوں ، میں پھنکارتا ہوں اور بھڑک اٹھتا ہوں
تم نے بڑی سخت ضرب لگائی ہے
میری جھوٹے فخر کی ابھری ہوئی کلاہ پر
میرا ذہن منتشر ہے ، میں قریب سے باہر آنے کی کوشش کرتا ہوں
اپنی مسمار شدہ اور کمزور حالت سے
تم نے اڑا دیا ہے
میرے دھواں آلود قلعہ اور میرے غلط تصورات کے برج کو
میں اپنی لامتناہی بھول بھلیاں میں کھو گیا ہوں
تاریک اور بھیانک
ما یو سانہ طور پر باہر نکلنے کا راستہ تلاش کر رہا ہوں
تم نے میرے رہنما کی کھیس بے نقاب کر دی ہے
آہستہ آہستہ ، بہت آہستہ آہستہ
تقریباً بے خبری میں ، نہ جانتے ہوئے
رفتہ رفتہ
مرحلہ بہ مرحلہ
سچائی کی صبح اپنے آپ کو ظاہر کرتی ہے
میرا غصہ جانے لگتا ہے
میرا ذہن صاف ہونا شروع ہوتا ہے
اور میں صحیح رخ پر چل پڑتا ہوں
امید کی ایک کرن پھوٹتی ہے
گرجتے ہوئے تاریک بادلوں سے