دکان داری
دکاندار وہ ہے جو دکاندار بننے کے ساتھ گاہک بھی بن جائے ۔ جو صرف بیچنے والا نہ ہو، بلکہ اسی کے ساتھ وہ خریدنے والا بھی ہو۔ وہ اپنے آپ کو بھی جانے اور اسی کے ساتھ اپنی دکان پر آنےوالے متوقع خریدار کو بھی ۔
دکاندار اور گاہک دونوں بالکل الگ الگ نوعیت کے انسان ہیں۔ دکاندار کا ذہن پیسےکے رخ پر چلتا ہے ، اور گاہک کا ذہن سامان کے رخ پر۔ دکاندار کی نظر گاہک کی جیب پر ہوتی ہے، اور گاہک کی نظر دکان دار کے سامان پر ۔ مگر جو دکاندار صرف اتنا ہی جانتا ہو کہ اس کو گاہک کی جیب سے پیسہ نکالنا ہے ، وہ کبھی بڑا دکان دار نہیں بن سکتا ۔
کامیاب دکاندار وہ ہے جو گاہک کو ایک کتاب کی طرح پڑھے ۔ جو گاہک کی ضرورت کو اپنی ضرورت بنائے ۔ جو گاہک کے دل کی دھڑکن کو اپنے سینے میں محسوس کرنے لگے ۔ جو یہ جانے کہ گاہک اس سے کیا چاہتا ہے ۔ جو یہ جانے کہ گاہک خود اپنی چاہت کے اعتبار سے کسی چیزسے مطمئن ہو گا ۔
ایک دکاندار وہ ہے جو سٹرک پر دکان کھول کر بیٹھ جائے ۔ کوئی گاہک آئے تو نرخ نامہ دیکھ کر اس کو دام بتا دے ۔ گاہک اگر سامان طلب کرے تو سامان دیدے ، اور اگر وہ سامان دیکھ کر رکھ دے تو دکاندار دوبارہ اپنی سیٹ پر بیٹھ جائے ۔ یا اطمینان کے ساتھ اخبار پڑھنے لگے۔
دوسرا دکاندار وہ ہے جس کا جسم دکان میں ہو مگر اس کا دماغ سڑکوں اور بازاروں میں گھوم رہا ہو ۔ ذہنی اعتبار سے وہ گاہک کے درمیان چلنے پھرنے لگے ۔ گاہک کے بتانے سے پہلے وہ گاہک کی ضرورت اور اس کی طلب کو جانتا ہو ۔ وہ گاہک کو یک طرفہ طور پر خوش کرنے کی کوشش کرے ، خواہ گاہک نے اپنی کسی بات سے اس کو ناراض کر دیا ہو۔ وہ آخری حد تک گاہک کا ہمدرد بن جائے ، خواہ گاہک اس کے یہاں پہلی بار آیا ہو، اور یہ بھی اندیشہ ہو کہ وہ دوبارہ کبھی نہیں آئے گا۔