پیغمبر کا فیصلہ
بخاری اور مسلم نے حضرت حذیفہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان کھڑے ہوئے ۔ آپ نے خطبہ دیا اور ہر وہ بات بیان کی جو آپ کے زمانے سے لے کر قیامت تک ہونے والی تھی (مشکاۃ المصابیح ، الجزء الثالث ، صفحہ ۱۴۸۰)
حدیث کی کتابوں میں کثرت سے ایسی روایتیں موجود ہیں جن میں مستقبل کی باتیں نقل کی گئی ہیں۔ انہیں میں سے ایک بات وہ ہے جو ابو داؤد نے ان الفاظ میں روایت کیاہے :
عَنْ ثَوْبَانَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم: «يُوشِكُ الْأُمَمُ أَنْ تَدَاعَى عَلَيْكُمْ كَمَا تَدَاعَى الْأَكَلَةُ إِلَى قَصْعَتِهَا»، فَقَالَ قَائِلٌ: وَمِنْ قِلَّةٍ نَحْنُ يَوْمَئِذٍ؟ قَالَ: «بَلْ أَنْتُمْ يَوْمَئِذٍ كَثِيرٌ، وَلَكِنَّكُمْ غُثَاءٌ كَغُثَاءِ السَّيْلِ، وَلَيَنْزَعَنَّ اللَّهُ مِنْ صُدُورِ عَدُوِّكُمُ الْمَهَابَةَ مِنْكُمْ، وَلَيَقْذِفَنَّ اللَّهُ فِي قُلُوبِكُمُ الْوَهْنَ»، فَقَالَ قَائِلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَمَا الْوَهْنُ؟ قَالَ: «حُبُّ الدُّنْيَا، وَكَرَاهِيَةُ الْمَوْتِ ۔( سنن أبي داود، 4297)
حضرت ثوبان کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ زمانہ آنے والا ہے جب کہ قومیں تمہارے اوپر ٹوٹ پڑیں جس طرح کھانے والے کھانے کے پیالے پر ٹوٹتے ہیں۔ ایک شخص نے کہا ، کیا اس لیے کہ اس وقت ہم لوگ کم تعداد میں ہوں گے ۔ آپ نے فرمایا کہ نہیں ۔ اس وقت تم لوگ بہت زیادہ ہو گے ۔ مگر تم لوگ سیلاب کے جھاگ کی مانند ہو گے ، اللہ تمہارے دشمنوں کے دل سے تمہاری ہیبت نکال دے گا ۔ اور تمہارے دلوں میں کمزوری پیدا کر دے گا۔ کہا گیا کہ اے خدا کے رسول، کمزوری کیا ہے ۔ آپ نے فرمایا کہ دنیا کی محبت ، اور موت کو نا پسند کرنا ۔
اس حدیث کے الفاظ پر غور کیجیے اور امتِ مسلمہ کے موجودہ حالات کو دیکھیے ۔ معلوم ہو گا کہ آج امت پر عین وہی زمانہ آگیا ہے جس کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ۱۴ سو سال پہلے پیشین گوئی فرمائی تھی۔ موجودہ مسلمان ، خواہ وہ اقلیتی ملک میں ہوں یا اکثریتی ملک میں، ہر جگہ وہ دوسری قوموں کے استحصال اور زیادتی کا نشانہ بن رہے ہیں ۔ ساری دنیا میں ایک ارب کی غیر معمولی تعداد میں ہونے کے باوجود وہ حقیر اور مظلوم بنے ہوئے ہیں ۔
اب دیکھیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آنے والے دور کے بارے میں جو ارشاد فرمایا ہے وہ کیا ہے۔ اس حدیث میں واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ اس زمانےمیں دنیا کی قومیں مسلمانوں پر ٹوٹ پڑیں گی اور ان کو اپنے ظلم اور استحصال کا نشانہ بنائیں گی ۔ مگر اس خارجی مسئلہ کا سبب تمام تر داخلی مسئلہ بتایا گیا ہے۔ اس میں کھلے لفظوں میں یہ نشاندہی کی گئی ہے کہ یہ نا موافق صورت حال اس لیے پیش آئے گی کہ مسلمان دنیا کی طلب میں پھنس جائیں گے اور اپنے ذاتی مفاد سے اوپر اٹھ کر اعلیٰ دینی مقصد کے لیے قربانی کرنے کا جذبہ ان کے اندر باقی نہیں رہے گا۔ گویا مسئلہ باہر سے پیدا ہو گا مگر اس کا سبب خود مسلمانوں کے اپنے اندر ہوگا۔
اس کے مقابلےمیں موجودہ زمانے کے مسلمانوں کے ان الفاظ کو دیکھیے جو ان کے تمام اصاغروا کا بر لکھنے اور بولنے میں مصروف ہیں۔ یہ سب کے سب بلا استثناء ایک ہی بولی بول رہے ہیں ۔اور وہ ہے –––––– اپنی مصیبتوں کا ذمہ دار دوسروں کو قرار دے کر ان کے خلاف لا متناہی چیخ پکار جاری رکھنا۔
موجودہ زمانےکے مسلمان عربی ، اردو ، فارسی اور انگریزی میں اس معاملے میں جو کچھ کر رہے ہیں وہ سب کا سب الفاظ کے فرق کے ساتھ ایک ہی ہے ، اور وہ دوسری قوموں کی مذمّت ہے ۔ ان میں سے کوئی موٴامرہ کا لفظ بولتا ہے اور کوئی سازش کا اور کوئی ( conspiracy) کا ۔ مگر سب کے کلام کا خلاصہ صرف ایک ہے ۔ اور وہ یہ ہے کہ دوسری قومیں ہمارے خلاف سازشیں کر رہی ہیں۔ دوسری قومیں ہمارے اوپر ظلم کر ر ہی ہیں۔ دوسروں نے ہمیں تباہی اور مصیبت میں مبتلا کر دیا ہے ۔
مسلمان اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نصیحت پر دھیان دیتے تو وہ اپنی ساری کوشش اپنی اندرونی کمیوں کو دور کرنے پر لگا دیتے۔ مگر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نصیحت کو مکمل طور پر نظر انداز کیے ہوئے ہیں۔ ان کا ہر چھوٹا اور بڑا ، اور ان کا ہر لکھنے اور بولنے والاغیر قوموں کی سازشوں کا انکشاف کرنے میں مشغول ہے ۔ وہ دوسروں کے ظلم پر احتجاج کرنےمیں اپنے تمام الفاظ خرچ کر دینا چاہتا ہے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ سے یہی رُوگردانی موجودہ مسلمانوں کی تمام بر بادیوں کا اصل سبب ہے ۔ مسئلہ کے اصل سبب کو دور کرنے کے لیے وہ کوئی محنت نہیں کرتے۔ اس کے برعکس ایک فرضی چیز کو سبب قرار دے کر اس کے اوپر اپنی ساری توانائیاں خرچ کر رہے ہیں۔ ایسی ہر کوشش لغویت کی حد تک بے معنی ہے ۔ اس کا ہر گز کوئی نتیجہ نکلنے والانہیں ۔ خواہ مسلمان پچاس ہزار سال تک اس کی چٹان پر اپنا سر پٹکتے رہیں ۔
علمِ طب اگر کسی بیماری کے بارے میں یہ بتائے کہ اس کا سبب انسان کے جسم کے اندر ہے تو کوئی آدمی یہ نادانی نہیں کرے گا کہ وہ اس قسم کے مرض کے علاج کے لیے بیرونی مرہم تلاش کرنے لگے۔ کوئی مشین کام نہ کر رہی ہو ، اور انجینئر اس کو دیکھ کر کہے کہ اس کا سبب اس کے اندرونی پُرزے کی خرابی ہے ، تو کوئی آدمی مشین کے باہر پالش کر کے اس کو چلانے کی کوشش نہیں کرے گا۔ مگر مسلمانوں کے مسئلے کے بارے میں ان کے پیغمبرکا کھلا ہوا فیصلہ ہے کہ ان کے مسئلےکا سبب ان کا داخلی نقص ہے نہ کہ بیرونی سازش ، اس کے باوجود مسلمانوں کے تمام رہنما بیرونی سازشوں کا انکشاف کر رہے ہیں اور ان کے خلاف چیخ پکار کر نے میں مشغول ہیں۔ شاید موجودہ مسلمانوں کو پیغمبر کی رہنمائی پر اتنا یقین بھی نہیں ہے جتنا ایک مریض کو اپنے ڈاکٹر پر اور ایک مشین والےکو اپنے انجینئرپر ہوتا ہے ۔