یہ حاملینِ اسلام
صلح حدیبیہ کا واقعہ 6ھ میں پیش آیا۔ اسی سال کے آخر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اطراف عرب کے حاکموں اور بادشاہوں کو دعوتی خطوط روانہ کیے ۔ انھیں میں سے ایک خط وہ تھا جو دحیہ کلبی کے ذریعہ شاہ ِروم ہر قل (Heraclius) کے نام بھیجا گیا۔ یہ مسیحی تھا اور نہایت ذہین اور حقیقت پسند آدمی تھا۔
ہر قل اس وقت فلسطین میں تھا۔ اس زمانے میں عرب کے لوگ تجارت کی غرض سے اس علاقے میں جایا کرتے تھے۔ چنانچہ ہر قل نے تحقیقِ حال کے لیے کچھ عربوں کو بلوایا جن میں ابوسفیان بن حرب بھی شامل تھے۔ ہر قل نے ترجمان کے ذریعہ ان سے گفتگو کی۔ ایک روایت کے مطابق ، گفتگو کا ایک حصہ یہ تھا:
قَالَ: أَخْبِرْنِي يَا أَبَا سُفْيَانَ؟ فَقَالَ: هُوَ سَاحِرٌ كَذَّابٌ وَلَيْسَ بِنَبِيٍّ فَقَالَ هِرَقْلُ: إِنِّي لَا أُرِيدُ شَتْمَهُ وَلَكِنْ كَيْفَ نَسَبُهُ فِيكُمْ؟ قَالَ: كَيْفَ عَقْلُهُ وَرَأْيُهُ؟ (سیرۃ ابن کثیر، المجلد الثالث ، صفحہ 503)ہر قل نے کہا کہ اے ابو سفیان مجھے محمد کے بارے میں بتاؤ۔ ابوسفیان نے کہا کہ وہ جادو گر اور جھوٹے ہیں، وہ پیغمبر نہیں۔ ہر قل نے کہا میں تم سے ان کی سب و شتم سننا نہیں چاہتا۔ بلکہ مجھے یہ بتاؤ کہ ان کا حسب ونسب کیا ہے ، ان کی سمجھ کیسی ہے اور ان کی رائےکیسی ہے۔
ہر قل ایک" کافر "تھا۔ وہ کافر ہی رہا اور کافر ہی مرا۔ مگر اُس کو اِس سے دل چسپی نہیں تھی کہ کوئی شخص اس کے حریف کے بارے میں برے الفاظ بولے اور وہ اس کو سن کر خوش ہو۔ بلکہ اس کی دل چسپی اس میں تھی کہ وہ جانے کہ جو شخص اس کا حریف بن کر ابھرا ہے ، وہ خاندانی شرافت اور ذہنی صلاحیت کے اعتبار سے کیسا ہے، وہ صاحبِ رائے ہے یا نہیں۔ وغیرہ۔
اس کے مقابلے میں موجودہ حاملینِ اسلام کو دیکھئے ۔ ان کا حال یہ ہے کہ وہ اپنے حریف کے خلاف کوئی بھی لغو بات سننے کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔ کوئی کمینہ آدمی اگر ان کے مفروضہ حریف کے خلاف جھوٹے مضامین شائع کرے تو اس کو روکنا تو درکنار ، وہ اس کو لطف لے کر پڑھیں گے اور ان کے معتقدین اس کو ہر طرف پھیلا ئیں گے ––––– کیسے عجیب ہیں وہ حاملینِ اسلام جو حاملین ِکفر کے اخلاقی معیار پر بھی پورے نہ اتریں۔