الٹاسفر
کسان نے ایک دانہ زمین میں ڈالا ۔ وہ دانہ مٹی میں مل گیا ۔ چند روز بعد ایک سرسبز پودا زمین سے نکلا ۔ اس نے خاموش زبان میں اعلان کیا کہ دانہ کا خاتمہ اس کے لیے ایک نئی زندگی کا آغاز تھا۔ اس کا زمین کے نیچے جانا دوبارہ نئی شان کے ساتھ زمین پر نمایاں ہونے کی طرف پہلا قدم تھا ۔ یہ خدا کا قانون ہے اور کائنات میں ہر طرف خاموش زبان میں اس قانون الٰہی کا اعلان کیا جارہا ہے۔
کھیت سے فصل لینے کے لیے پہلے اپنے دانے کو زمین میں دفن کرنا پڑتا ہے ۔ دکان سے فائدہ حاصل کرنے کے لیے پہلے اپنے سرمایہ کو دکان میں لگا دینا پڑتا ہے ۔ ایک رہائشی مکان کا مالک بننےکے لیے ضروری ہوتا ہے کہ پہلے اپنی اینٹوں کو بنیاد میں دفن کر دیا جائے ۔
موجودہ زمانےکے مسلمان جس طرح عمل کر رہے ہیں، اس کا مطلب بظاہر یہ ہے کہ وہ خداکےاس قانون پر راضی نہیں۔ مسلمان اس قانون الٰہی کو الٹی طرف سے چلانا چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ کھوئے بغیر پائیں اور دیے بغیر حاصل کریں۔ مگر مسلمانوں کو جاننا چاہیے کہ ایسا کبھی ہونے والا نہیں۔ مسلمان اپنی اس الٹی جد و جہد میں ایک صدی ضائع کر چکے ہیں ۔ اگر وہ مزید ایک ہزار سال تک اپنی یہ الٹی کوشش جاری رکھیں تب بھی انھیں کچھ ملنے والا نہیں۔ جتنے محروم وہ آج ہیں ، اتنےہی محروم وہ ایک ہزار سال بعد بھی رہیں گے ۔
یہی موجودہ زمانے کے مسلمانوں کا اصل المیہ ہے۔ ایک لفظ میں ، وہ پانے سے آغاز کرنا چاہتے ہیں ، جب کہ اس دنیا میں زندگی کا راز یہ ہے کہ کھونے سے آغاز کیا جائے ۔ مسلمانوں کے موجودہ شور و غل کا مطلب صرف یہ ہے کہ انہوں نے اب تک آغاز بھی نہیں کیا۔ اور جو لوگ آغاز نہ کریں ، وہ اختتام پر کس طرح پہنچ سکتے ہیں ۔
کسی شخص کو پورب کی طرف جانا ہو اور وہ پچھم کی طرف جانے والی ٹرین پر بیٹھ جائے تو اس کو گارڈ اور ڈرائیور کی شکایت نہیں کرنا چاہیے اگر اگلے اسٹیشن پر پہنچ کر اسے معلوم ہو کہ وہ اپنی منزل سے جتنا دور پہلے تھا، اب وہ اس سے بھی زیادہ دور ہو چکا ہے۔ اس کی نارسائی اس کی اپنی بد تدبیری کا نتیجہ ہے نہ کہ کسی او رکی سازش کا نتیجہ۔