اعتراف
فتح مکہ کے بعد جب عرب پر اسلام کا غلبہ قائم ہو گیا اور اکثر قبائل اسلام میں داخل ہوگئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتوں کے خاتمہ کی مہم شروع کی ۔ اس سلسلےمیں ایک مہم وہ تھی جوسواع کی طرف سے بھیجی گئی۔
ہذیل بن مدرکہ بن الیاس بن مضر نے زمانہ ٔجاہلیت میں ایک بت بنایا تھا جو سواع کہا جاتا تھا، اس بت کو انھوں نے ریاط (ینبوع ) میں رکھا تھا ۔ رمضان 8 ھ میں حضرت عمرو بن العاص سواع کو منہدم کرنے کے لیے بھیجے گئے ۔
یہ مقام مکہ سے تین میل کے فاصلہ پر تھا۔ عمرو بن العاص جب وہاں پہنچے تو اس بت کے مجاور نے ان سے پوچھا کہ تم کس ارادہ سے یہاں آئے ہو۔ عمرو بن العاص نے جواب دیا کہ میں خدا کے رسول کے حکم سے یہاں آیا ہوں تا کہ اس بت کو منہدم کر دوں ۔ مجاور کے ذہن پر سواع کی عظمت اتنی زیادہ چھائی ہوئی تھی کہ اس نے کہا کہ تم کبھی ایسا نہ کر سکو گے ۔ سواع تم کو ضرور اس سے روک دے گا۔ عمرو بن العاص نے کہا کہ افسوس ہے تمہارے اوپر ، تم اب تک اسی وہم میں پڑے ہوئےہو ۔ کیا یہ بت سنتا ہے اور دیکھتا ہے جو وہ مجھ کو روک دے گا۔ یہ کہہ کر انھوں نے سواع پر ایک ضرب لگائی اور بت ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا ۔
یہ منظر مجاور کے لیے بالکل خلافِ توقع تھا۔ بت کے ٹوٹنے کے ساتھ اس کے خیالات کاطلسم بھی ٹوٹ گیا ۔ وہ پکار اٹھا : أسلمت لله ۔ اور اسی وقت شرک کو چھوڑ کر دین توحید (اسلام) میں داخل ہو گیا ۔
حق کو نہ ماننے والے دو قسم کے ہوتے ہیں ۔ ایک وہ جو تعصب اور نفسانیت کی وجہ سے حق کو نہ مانیں ۔ دوسرے وہ جو غلط فہمی کی وجہ سے حق کو نہ مانیں۔ پہلی قسم کے لوگوں کو کبھی حق کا اعتراف کرنے کی توفیق نہیں ملتی ۔ مگر دوسری قسم کے لوگوں کا نہ ماننا وقتی ہوتا ہے ۔ وہ نہ سمجھنے کی وجہ سے انکار کر رہے تھے، اس لیے جب بات کو دلیل سے واضح کر دیا جائے تو وہ فوراً حق کو پالیتے ہیں اور اپنی پچھلی روش کو چھوڑ کر اس کے آگے جھک جاتے ہیں ۔