غلط ذہن
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مخاطبین آپ سے " آیت " مانگتے تھے ۔ اس کے جواب میں فرما یا گیا کہ کیا تمھیں " بینہ " نہیں دے دیا گیا ۔ آیت سے مرادحسی معجزہ ہے اور بینہ سے مراد آپ کی پیغمبرانہ صداقت کی وہ دلیل ہے جو لفظی طور پر سابق کتب سماوی میں ملتی ہے۔ لفظی دلیل میں چونکہ توجیہہ و تعبیر کی گنجائش رہتی ہے۔ اس لیے انھوں نے کہا کہ ہمارے سامنے ایسی حسی دلیل پیش کرو جس سے انکار کی گنجائش ہی نہ ہو (طٰہٰ: 35 -133 )
فرمایا کہ اصل مسئلہ دلیل کا نہیں، اصل مسئلہ تمہاری ذہنیت کا ہے۔ تم چونکہ حق ناحق کے بارے میں سنجیدہ نہیں ہو اس لیے دلیل کا دلیل ہونا تمہیں دکھائی نہیں دیتا ۔
صداقت جب بھی ظاہر ہوتی ہے، وہ اپنی دلیل آپ بن کر ظاہر ہوتی ہے۔ مگر اس کی دلیل کو پانا اور اس کا اقرار کر نا صرف اس وقت ممکن ہے جب کہ آدمی اس کے بارے میں سنجیدہ ہو، لوگوں کی سطحیت اور مفاد پرستی انھیں حق کے بارے میں سنجیدہ ہونے نہیں دیتی ۔ وہ اپنے دماغ کو حق اور ناحق کی بحث میں زیادہ مشغول نہیں کرتے ۔ وہ اس موضوع پر زیادہ سنجیدگی کے ساتھ غور نہیں کرتے ۔ اس بنا پروہ دلیل کے وزن کو بھی محسوس نہیں کر پاتے ۔ وہ دلیل پیش کیے جانے کے باوجود اس طرح بولتے رہتے ہیں جیسے کہ ابھی ان کے سامنے دلیل پیش ہی نہیں کی گئی۔
ظالم انسان اس وقت تک اقرار نہیں کرے گا جب تک وہ اقرار کے لیے مجبور نہ کر دیا جائے ۔ قیامت کے ظہور کے بعد ایسا ہی ہوگا۔ مگر اس وقت کے اقرار کا کیا فائدہ ۔ وہ تو انجام بھگتنے کا وقت ہو گا نہ کہ ماننے یا عمل کرنے کا۔
انسان کا حال یہ ہے کہ اگر خدا کی طرف سے کوئی پیغام دینے والا آئے تو وہ اس سے جھوٹی بحثیں کرتا ہے ۔ اور اگر خدا کوئی پیغام دینے والانہ بھیجے اور بتا ئے بغیر لوگوں کو ان کی غلط روش پر پکڑلے تو وہ کہیں آپ نے ہم کو خبر دارکیوں نہیں کیااگر ہم کو پہلے بتادیا گیا ہوتا تو ہم ہرگز اس کے خلاف نہ کرتے۔وہ دونوں حالتوں میں غلط روش اختیار کرتا ہے ۔
ہدایت اگر چہ داعی کی طرف سے سامنے آتی ہے ، مگر اس کو قبول کرنے کا انحصار تمام تر مدعو کے اوپرہوتا ہے۔ مدعو کے اندر اگر طلب ہوگی تو وہ ہدایت کو پائے گا، ورنہ وہ اس سے محروم رہے گا۔