حقیقی شخصیت
حضرت عمرفاروق سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ عمل کا دار و مدار نیت پر ہے ۔ اور ہر آدمی کے لیے وہی ہے جس کی اس نے نیت کی ۔ پس جس شخص کی ہجرت اللہ اور رسول کی طرف ہو ، تو اس کی ہجرت اللہ اور رسول کے لیے ہے۔ اور جس شخص کی ہجرت دنیا حاصل کرنے کے لیے ہو ، یا کسی عورت سے نکاح کرنے کے لیے ہو تو اس کی ہجرت اسی چیز کے لیے ہےجس کی طرف اس نے ہجرت کی ۔
ایک شخص ہجرت کے سفر پر مکہ سے مدینہ کے لیے روانہ ہوتا ہے۔ بظاہر اس کا جسم ایک مقدس سفر میں ہے ۔ مگر اس کا ذہن ایک اور خیال میں لگا ہوا ہے ۔ وہ سوچ رہا ہے کہ اس کو مدینہ پہنچ کر فلاں دنیوی فائدہ حاصل کرنا ہے ۔ ایسے شخص نے اپنے ظاہر کے اعتبار سے ہجرت کی، مگر اس نے اندر کے اعتبار سے ہجرت نہیں کی ۔ اس کا جسم تو مہاجر ہے ، مگر اس کی روح بدستور غیر مہاجر۔
ایسا شخص آخرت میں اپنے جسم کے اعتبار سے نہیں اٹھے گا، بلکہ اپنی روح کے اعتبار سے اٹھے گا۔ اس کے ساتھ اس کی اندرونی حقیقت کے مطابق معاملہ کیا جائے گا نہ کہ اس کے ظاہری حلیہ کے مطابق ۔ اس کی ظاہری شخصیت اسی موجودہ دنیا میں رہ جائے گی، آخرت میں اس کی صرف وہ شخصیت پہنچے گی جو اس نے داخلی طور پر اپنے جسم کے اندر بنائی تھی۔
موجودہ دنیا میں ہر آدمی ایک قسم کا مکھوٹا (Mask) لگائے ہوئے ہے۔ کوئی مہاجر مکھوٹا، کوئی مجاہد کا مکھوٹا ، کوئی اور دینی مکھوٹا ۔ اس قسم کے مکھوٹوں سے انسان دھوکا کھا سکتے ہیں، مگر خدا ان سے دھوکا کھانے والا نہیں ۔ آخرت میں خدا ہر ایک کا مکھوٹا اس کے چہرے سے اتار دے گا ۔ اس وقت لوگ دیکھیں گے کہ وہ شخص جو بظا ہر علمبردار اسلام کا مکھوٹالگائے ہوئے تھا، وہ اندر سے صرف علم بردارِ مفاد تھا اس کے سوا اور کچھ نہیں۔
جو شخص اندرونی طور پر کچھ اور ہو ، اور بیرونی طور پر اپنے آپ کو کچھ اور بنا کر پیش کرے ، وہ خدا کو دھوکا دے رہا ہے ، ایسا آدمی آخرت میں فریب کار کی حیثیت سے اٹھایا جائے گا نہ کہ دیندار کی حیثیت سے۔