شعور اور عمل
قرآن میں بنی اسرائیل کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ انھوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا کہ ہم کو جنگ کا حکم دیجئے۔ مگر جب ان کو جنگ کا حکم دیا گیا تو تھوڑے لوگوں کو چھوڑ کر ان کی اکثریت جنگ کرنے کے لیے تیار نہ ہوئی (البقرہ: 246)
اس کے برعکس پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کے بارے میں ارشاد ہوا ہے کہ جب ان کو جنگ کا سامنا ہوا اور ان سے لڑنے کے لیے کہا گیا تو وہ فورا ًمقابلے کے لیے تیار ہو گئے ۔ انھوں نے کہا کہ یہ تو وہی چیز ہے جس کا خدا اور رسول نے ہم سے وعدہ کیا تھا (الاحزاب :22)
اس فرق کی وجہ یہ ہے کہ حضرت موسیٰ کے ساتھ جو لوگ تھے وہ پیدائشی مومن تھے۔ جب کہ پیغمبر اسلام کا ساتھ دینے والے وہ لوگ تھے جو شعوری انقلاب کے بعد مومن بنے تھے ۔ یہی وہ فرق ہے جس نے دونوں کے کردار میں اتنا بڑا فرق پیدا کر دیا۔ عمل کا معاملہ لازمی طور پر شور کے ساتھ وابستہ ہے۔ آدمی کا شعور جتنا گہرا ہو گا اس کا عمل بھی اُتنا ہی گہرا ہو گا۔ اور اس کا شعور جتناسطحی ہو گا اس کے عمل میں بھی اتنی ہی سطحیت آتی چلی جائے گی ۔
اس فرق کو دوسرے لفظوں میں اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے کہ عمل کے لیے صرف حکم کافی نہیں ۔کسی حکم کو قبول کرنے کے لیے اسی درجہ کا شعور بھی لازمی طور پر در کار ہے۔ جس شخص کو حکم دیا جا رہا ہے ، اس کا شعوری ارتقاء اگر حکم سے کم تر درجہ کا ہو تو وہ حکم کی معنویت کو پوری طرح سمجھ نہ سکے گا۔ وہ اس کو اپنے دماغ میں وہ اہمیت دینے سے قاصر رہے گا جو باعتبار حقیقت اسے دیناچاہیے ۔ اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ وہ نفسیاتی طور پر اس کی تعمیل کے لیے بھی تیار نہ ہو سکے گا۔
ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ ابتدائی دور میں جو لوگ ایمان قبول کرتے ہیں وہ شعور اور ارادہ کےتحت ایمان قبول کرتے ہیں ان کی بعد کی نسلوں میں یہ شعور مدھم پڑ جاتا ہے یا ختم ہو جاتا ہے ۔ اب ضرورت ہوتی ہے کہ دوبارہ ان کے شعور کو جگایا جائے ، ان کے تقلیدی ایمان کو ارادی فیصلہ کے تحت اختیار کرنے والا ایمان بنا دیا جائے ––––– موجودہ زمانےکے مسلمانوں کی اصلاح کاپہلا قدم یہی ہے کہ ان کے اندر شعوری ایمان کو جگانے کی کوشش جائے ۔