دنیا سے آخرت لینا

قرآن میں قارون کا قصہ بیان ہوا ہے ۔ ارشاد ہوا ہے کہ وہ حضرت موسیٰ کی قوم سے تعلق رکھتا تھا۔ پھر فرعون سے مل کر اس نے کافی دولت کمائی۔ اس کے خزانوں کا یہ حال تھا کہ" ان کی کنجیاں طاقت ور آدمیوں کی ایک جماعت مشکل سے اٹھا سکتی ۔ اس دولت سے قارون کے اندر فخر اور گھمنڈ پیدا ہو گیا ۔ اس وقت کچھ صالح بندوں نے اس کو نصیحت کی کہ دولت پر فخرنہ  کر۔ اللہ نے تجھ کو جو کچھ دیا ہے اس سے آخرت کا طالب بن اور دنیا سے اپنا حصہ نہ بھول"۔وَابْتَغِ فِيْمَآ اٰتٰىكَ اللّٰهُ الدَّارَ الْاٰخِرَةَ وَلَا تَنْسَ نَصِيْبَكَ مِنَ الدُّنْيَا وَاَحْسِنْ كَمَآ اَحْسَنَ اللّٰهُ اِلَيْكَ  (28:77)

اس کی تفسیر کے سلسلے میں مفسرین کے کچھ اقوال یہ ہیں :

وقيل ‌معناه ‌ واطلب ‌بدنياك ‌آخرتك ‌فإن ‌ذلك ‌حظ ‌المؤمن ‌منها (تفسير النسفي،ج 2 ص، 657) اور کہا گیا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنی دنیا کے ذریعہ آخرت چاہو۔ کیونکہ یہی اس سے مومن کاحصہ ہے۔

يعنى ما تحصل بها آخرتك فان حقيقة ‌نصيب ‌الإنسان من الدنيا ان يعمل للاخرة فان الدنيا مزرعة الاخرة كذا قال مجاهد وابن زيد وقال السدى نصيبك من الدنيا الصدقة وصلة الرحم وقال على رضى الله عنه لا تنس صحتك وقوتك وشبابك وغناك ان تطلب الاخرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم اغتنم خمسا قبل خمس حياتك قبل موتك وصحتك قبل سقمك وفراغك قبل شغلك وشبابك قبل هرمك وغناك قبل فقرك- رواه الحاكم والبيهقي بسند صحيح واحمد فى الزهد وروى البغوي وابن حبان وابو نعيم فى الحلية عن عمر بن ميمون الأودي مرسلا نحوه وقال الحسن أمران يقدم الفضل ويمسك ما يغنيه يعنى ما يكفيه ۔(التفسيري المظہری،ج  7صفحہ  181) یعنی دنیا سے وہ چیز لینا نہ بھولو جس سے تم اپنی آخرت حاصل کر سکو۔ دنیا سے انسان کا اصل حصہ یہ ہے کہ وہ آخرت کے لیے عمل کرے ۔ کیوں کہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے ۔ مجاہد اور ابن زید کا قول یہی ہے۔ اور سدی نے کہا کہ دنیا سے تمہارا حصہ صدقہ اور صلہ رحمی ہے۔ اور علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تم اپنی صحت اور اپنی قوت اور اپنی جوانی اور اپنی دولت کے معاملہ میں یہ نہ بھولو کہ تم اس کے ذریعہ سے آخرت چاہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : پانچ چیزسے پہلے پانچ چیز کو غنیمت جانو۔ اپنی موت سے پہلے اپنی زندگی کو ۔ اپنی بیماری سے پہلے اپنی صحت کو۔ اپنی مشغولیت سے پہلے اپنی فراغت کو۔ اپنے بڑھاپے سے پہلے اپنی جوانی کو۔ اور اپنی محتاجی سے پہلے اپنی دولت مندی کو ۔ اور حسن بصری نے کہا کہ یہاں یہ حکم دیا گیاہے کہ حقیقی ضرورت کے بقدر مال روک کر ضرورت سے زیادہ کوآگے بھیجو۔

موجودہ دنیا جو انسان کو دی گئی ہے ، وہ آخرت کی کمائی کرنے کے لیے دی گئی ہے۔ جس شخص نے دنیا میں آخرت کے فائدہ والا کام کیا، اس نے دنیا سے آخرت کا حصہ لیا۔ اس کےبرعکس جو شخص دنیا میں صرف دنیا کے فائدہ والا کام کرتا رہا۔ اس نے دنیا سے آخرت کا حصہ نہیں لیا۔ وہ موت کے بعد دوسری دنیا میں اس طرح پہنچے گا کہ وہاں اس کے لیے کچھ نہ ہوگا۔

یہ انجام صرف عام دنیا داروں کا نہیں ہو گا ۔ یہی انجام ان لوگوں کا بھی ہو گا جو بظاہر دین والے کام کرتے ہیں۔ مگر اس سے ان کا مقصد دنیوی فائدہ حاصل کرنا ہوتا ہے ۔ دین کا کام کر کے اگر کوئی شخص مال ، قیادت ، شہرت ، عزت ، بڑائی چاہے تو اس نے بھی گویا دنیا سے اپنی آخرت کا حصہ نہیں لیا۔ وہ بھی آخرت میں اتنا ہی نامراد ہو گا جتنا بد نام قسم کے دنیا دار،بلکہ شاید اس سے بھی زیادہ ۔

 

خاتون اسلام (نیا ایڈیشن)

خاتون اسلام کا پہلا ایڈیشن غیر معمولی طور پر مقبول ہوا اور بہت جلد ختم ہو گیا۔ اب اس کا دوسرا ایڈیشن چھپ کر تیار ہے ۔ دوسرے ایڈیشن میں تقریباً  100 صفحات کا اضافہ کیا گیا ہے۔ مزید معلومات کے لیے دفتر سے رابطہ قائم فرمائیں۔

منیجر مکتبہ الرسالہ

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom